افسران سپورٹس ڈائریکٹریٹ، اے جی آفس اور کمائی


پشتو زبان کاایک محاورہ ہے "چی سہ خڑے اوبہ او سہ ڑاندہ مہیان" لفظی معنوں میں یہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج والی حساب ہے لفظی ترجمے کے مطابق کچھ پانی مٹی سے الودہ ہے اور کچھ مچھلیاں اندھی ہیں اس لئے نظر کچھ نہیں آتا. شائد ایسا ہی ہو لیکن مدینے کی ریاست کے نام پر پرائی بچیوں کو ڈی جے کی میوزک پر نچانے والے وفاق میں کیا کرتے رہے یہ الگ بات ہے یہاں خیبر پختونخواہ میں ان کے نامزد کردہ صاحبان نے " اندھیرنگری اور چوپٹ راج"والا حساب کئے رکھا یہاں صرف کھیلوں کے شعبے سے وابستہ وزراء کی بات کرنا چاہیں گے کہ آخر اس شعبے میں کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ اتنا زیادہ مال آگیا ہے کہ ایک سابق نے اٹھارہ کروڑ روپے پر پشاور میں ہی اپنے لئے بڑا بنگلہ لے لیا جبکہ دوسرے سابق نے چارسدہ کے غنی خان روڈ پر کروڑوں کی جائیدادیں بنا لی.شائد انہیں یقین ہے کہ وہ اسی میں اپنی زندگی گزاریں گے اللہ کرے کہ ایسا ہو. لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جس اسمبلی میں "کنفلیکٹ آف انٹرسٹ" کا قانون پاس ہوا کہ کوئی کاروبار نہیں کیا جائے گا ایسے میں کھیل سے وابستہ وزراء کے پاس کونسا کاروبار تھا کہ انہوں نے دس سال میں اتنا کچھ کما لیا حالانکہ صوبے کے عوام " آٹے کے دس تھیلے " کیلئے گدھوں کی طرح بھاگتے، کتوں کی طرح لڑتے دکھائی دیتے ہیں.اگر سابقہ وزراء مہربانی کرکے اپنے کاروبار کو "کمی کمینوں "کیساتھ شیئر کردیں تو ان کا بھی بھلا ہو جائیگا.

ویسے اس شعبے میں اتنی اندھیرنگری ہے کہ جس طرح موم بتی کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح یہاں پر اندھیر نگری مچی ہوئی ہے راقم نے اس طرح کے بلاگ کے توسط سے "فارم ب "پر شعبہ سپورٹس میں ایک صحافی کی ممبرشپ کی نشاندھی کی تھی جس پر ہوا تو بہت کچھ لیکن سب سے زیادہ گالیاں راقم کے حصے میں آئی.کیونکہ راقم نے یہ سوال اٹھایا تھاکہ اگر ہر چیز کا کوئی معیار ہے تو پھر صحافت کا معیار بھی ہونا چاہئیے. اگر کوئی اپنے آپ کو براڈکاسٹ کا صحافی کہلواتا ہے تو اسے پھر براڈکاسٹ کی بنیادی اصولوں کا پتہ ہوگا، اسی طرح اگر کوئی پرنٹ میڈیا کا صحافی اپنے آپ کو کہلواتا ہے تو پھر اس کے پاس اس شعبے کا تجربہ ہوگا اور اگر کوئی اپنے آپ کو سوشل میڈیا انفلواسر کہلواتا ہے تو اس شعبے کا بھی کوئی تجربہ، ڈگری یا کچھ ہوگا جس پر بہت ساروں کو آگ لگی تھی بشمول " فارم ب " سے وابستہ افراد ور انہیں سپورٹ کرنے والوں کی، وہ شائد ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ جس طرح وہ دنیا کے لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں اسی طرح نعوذ باللہ ، اللہ تعالی کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہونگے.حالانکہ دنیا کو میلے کی مثال دینے والے اللہ کے سامنے ہماری اوقات کیا ہے یہ ہر کوئی بشمول راقم نطفے سے وجود میں آنیوالے اپنے جسم کو دیکھ لیں. تبھی اللہ کی وحدانیت پر یقین بھی آئیگا.

باتیں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوتی جارہی ہیں، فارم ب پر صحافت کرنے والوں کے بارے میں راقم نے نشاندہی کردی تھی اب اسی فارم ب کے ذریعے راقم یہ سوال سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں بھرتی ہونیوالوں کے بارے میں بھی جاننے کا خواہشمند ہے کہ فارم ب پر بھرتی ہونے والے کون ہیں اور کب سے تنخواہیں لے رہے ہیں اور انہیں سپورٹ کرنے والے کون ہیں کیا ایمانداری کی مثالیں اپنے آپ کو دینے والے اس شعبے کے سربراہ کو ان باتوں کا پتہ نہیں، اگر نہیں تو پھر یہ ان کی نااہلی ہے اور اگر انہیں پتہ ہے کہ فارم ب پر کن کے بچوں کو کئی سالوں سے ملازمت دی گئی ہیں اور وہ بچے ملازمت بھی نہیں کرتے بلکہ اپنے سکولوں اور کالجز میں پڑھ رہے ہیں لیکن چونکہ ان کی اس شعبے میں زیادہ چلتی ہے اس لئے انہیں ایڈجسٹ کیا گیا -

سوال یہ ہے کہ ایک طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والی ایسوسی ایشنز یا ٹورنامنٹ آرگنائز کرنے والے افراد کو اپنے دفاتر میں فنڈز پر اتنا بے عزت کردیتے ہیں کہ ٹورنامنٹ یا چیمپئن شپ آرگنائز کرنے والا خود دار شخص زندگی بھر کھیل کے شعبے سے بھاگتا ہے حالانکہ "صاحب "لوگوں تک چٹ کے ذریعے پہنچنا بھی بڑا مشکل ہے کیونکہ انتظار کراکے لوگوں کو اپنی اوقات دکھانے کی "پی ایم ایس" افسری میں کچھ الگ ہی مزا ہے.اب اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس فنڈز نہیں تو پھر جن کو فارم ب پر بھرتی کیا گیا انہیں کس مد میں ادائیگیاں کی گئی اوران سے کونسا کام لیا گیا، ویسے تحقیقاتی اداروں کو اب مولانا بجلی گھر کی طرح کام کرنا ہوگا نہ کہ جس طرح چند روز قبل سولہ گریڈ کے ایک افسر کے کہنے پر ٹرف کو آگ لگا دی گئی اور پھر اس افسر کو بچانے کیلئے دیگردیگر افسران کی مدد سے یہ کہہ کر بات کو ختم کیا گیا کہ" مسجد میں جا کر قسم کھانے کو تیارہیں "، کئی سالوں سے قرآن پاک کو ہاتھ تک نہ لگانے والے صرف قسم کھانے کیلئے قرآن اٹھانے کو تیار ہوتے ہیں لیکن اسی ٹرف کے بدلے میں چار ملازمین کو معطل کیا گیا جن میں ایک کو ماں بہن کی گالیاں بھی سننی پڑی، کیا تحقیقاتی اداروں سے وابستہ مولانا بجلی گھر کی طرح جنہوں نے ٹرف کو آگ لگوائی جنہوں نے فارم ب پر اپنے رشتہ دار بھرتی کروائے" طلاق " دیکر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس عمل میں کس کا ہاتھ تھا.اور تحقیقات کا عمل اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختونخواہ کے ریکارڈ سے شروع کیا جانا چاہئیے، تاکہ پتہ تو چل سکے کہ اے جی آفس میں تعاون کرنے والے بھی کون ہیں.

ہاتھ پر یاد آیا کہ سینی ٹیشن اور سیوریج کا کام کرنے والے ایک نیم سرکاری ادارے کے اہلکار کیساتھ بھی ہاتھ ہوگیا، ان کے رشتہ دار سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک "وڈے"افسر نے لازمی ملازمت کے بعد معذور اپنے رشتہ دار کو ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں بھرتی تو کرلیا لیکن چونکہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں تعمیراتی کام جاری ہے اس لئے اس شخصیت کو سوئمنگ پول میں کبھی آنے اور کبھی نہ آنے کی ہدایت کرتے ہوئے تنخواہیں بھی شروع کردی گئی ہیں. کہ یہ معذور شخص "وڈے افسر"کی بیوی کا رشتہ دار ہے اور بیوی سے ہر شریف آدمی ڈرتا ہے، خواہ وہ رینکر افسر ہو یا پی ایم ایس، بیوی کی بدمعاشی ہر افسر پر چلتی ہے، ہاتھ اس رشتہ دار کیساتھ اب سینی ٹیشن اور سیورج کا کام کرنے والے کمپنی نے یہ کردیا کہ انہیں کہا گیا کہ جی پی فنڈز انہیں تب ملے گا کہ وہ اپنی ملازمت پوری کرے کیونکہ اس کی مدت ملازمت میں کچھ ماہ باقی ہے جسے ختم کرنے کیلئے "وڈے افسر"کوشاں ہے کیونکہ " وڈے "کی بات "وڈے افسران"ہی مانتے ہیں،کیا وفاق کے بعد صوبہ ایک جگہ سے ریٹائرڈ ہونے والے کی دوبارہ بھرتی پر پابندی نہیں لگا سکتا ویسے بھی جو ارباب نیاز سٹیڈیم ابھی تک بنا ہی نہیں پھر اس پر بھرتیاں کیسی، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس طرح ہی چلانا ہے تو پھر اس کے مین گیٹ پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بجائے اگر"افسران سپورٹس ڈائریکٹریٹ"لکھا جائے تو کچھ جائیگا بھی نہیں اور ہم جیسے کمی کمین جو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے "ڈی ایس او" بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ بھی آرام سے بیٹھ جائیں گے.
#kikxnow #digitalcreator #sports #sporstnews #article #blogsports #peshawarnews #mojo #mojosports #games #wssp #directorate #
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498756 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More