ارشادِ ربانی ہے :’’یقیناً فلاح پائی ہے
ایمان والوں نے جو:اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ،لغویات سے دور رہتے
ہیں ، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں‘‘۔ سورۂ مومنوں کی ابتدائی ۹؍آیات
میں اہل ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ یہاں پر ایمان کے بعد نماز اور
زکوٰۃ کے درمیان بے کار باتوں سے پر ہیز کرنے کا ذکر اس کی اہمیت کا مظہر
ہے۔ بے فائدہ ،فضول، لایعنی اور لا حاصل باتیں لغو کہلاتی ہیں ۔یہ چونکہ
معصیت نہیں ہوتیں اس لیے ان میں ملوث ہو نے والے اپنا قیمتی وقت بے دریغ
ضائع کرتے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہو تا۔ وقت وہ سرمایۂ حیات ہےجس
کی مدد سےانسان اپنی عاقبت سنوارتا ہے چنانچہ بندۂ مومن اپنا وقت فضول اور
بےمقصد مصروفیات میں ضائع کرنے کے بجائےہر لمحہ اپنی شخصیت کی تعمیر اور
آخروی اجر وثواب کے حصول میں صرف کرتاہے۔مومن کی مثال اس طالب علم کی مانند
ہوتی ہےجو امتحان کے کمرے میں پرچہ لکھ رہا ہو۔ اس کو ہر لحظہ کی اہمیت کا
احساس ہوتا ہے اور وہ کوئی سیکنڈ نہیں گنواتا ۔اس کے پاس بیہودہ مذاق ،
غیبت، تہمت اور اور فحش گفتگو کی فرصت ہی نہیں ہوتی۔
ان صفات کے مالک مومنین کو آگے چل کر بشارت دی گئی کہ :’’یہی لوگ وہ وارث
ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ‘‘۔ اس انعام کے
بارے میں سورۂ مریم میں فرمایا گیا :’’ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے
آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ
برابر حق تلفی نہ ہو گی ۔ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کا رحمان
نے اپنے بندوں سے در پردہ وعدہ کر رکھا ہے اور یقیناً یہ وعدہ پُورا ہو کر
رہنا ہے ۔ وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک
ہی سنیں گے اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا‘‘۔ یعنی جنت
میں تو اہل ایمان کو بیہودہ باتوں سے نجات مل جائے گی لیکن دنیا میں انہیں
اس آزمائش کے اندر سے کامیابی کے ساتھ گزرنا ہوگا۔ اس کا قرآنی طریقہ یہ
ہے کہ :’’(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی
لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں‘‘۔
پہلے زمانوں میں فضول باتوں سے گریز کرنا قدرےآسان تھا اس لیے کہ لوگوں کو
بات چیت کے لیے ایک دوسرے سے بہ نفسِ نفیس ملنا پڑتا تھا ۔ ذرائع ابلاغ کی
ترقی نے دور دراز کے لوگوں سے فون پر بات چیت کرنےکی آسانی پیدا کردی۔ اس
طرح میل جول کے دائرۂ کارمیں وسعت پیدا ہوئی لیکن گھر یا دفتر میں ہونے کی
مجبوری تھی۔ وہیں دوسروں سے رابطہ ہوتا اوروہ ملاقات بھی مختصر ہوتی تھی ۔
موبائل فون نے انسانوں کو چلتے پھرتے ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ سائنسی ترقی
جاری رہی اور سوشیل میڈیا کا زمانہ آگیا ۔ اس نے باہمی رابطے کو نہ صرف
ارزاں اور تیز بنادیا بلکہ پوری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیا ۔ اب یہ
حالت ہے کہ جب بھی انسان واٹس اپ کھولتا ہے سیکڑوں پیغامات اس کے منتظر
رہتے ہیں ۔ انسٹا گرام ہزاروں ویڈیو اور آڈیو اس کی خدمت میں پیش کردیتا
ہے ۔ یو ٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھو تو اس کے نیچے ملتے جلتے دسیوں ویڈیوز اس
کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ۔فیس بک تو ایسی لت ہے کہ میں مبتلا شخص کے
لیے دنیا میں کوئی مفید کام کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہوجاتا ہے۔اس طرح
یہ نعمت جب اپنے حدود کو پھلانگتی ہے تو زحمت بھی بن جاتی اورمنشیات کی
مانند اندر ہی اندر کھوکھلا کرنے لگتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مایا جال میں
پھنسنے کے بعد انسان کے لیے مفید اور مضر میں فرق کرکے خود کو قابو میں
رکھنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔
پہلے زمانوں میں انسان دوچار لوگوں سے بحث مباحثہ کرتا تھا اب سیکڑوں سے
الجھا رہتا ہے۔ اس طرح انسان کی قوتِ کار کا ایک بڑا حصہ نادانستہ طور پر
فضولیات کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھار اہل ایمان دین ِاسلام کی
عائد کردہ اس ذمہ داری سے بھی غافل ہوجاتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے قول اور
فعل سے دوسرے مسلمان مردو عورت کی نا حق ایذا رسانی نہیں کرسکتا۔ نبی کریم
ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو،یہ ایک صدقہ ہے جو تم
اپنے نفس پر کرو گے‘‘۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : ’’کیا تم جانتے ہو کہ
مسلمان کون ہے؟صحابہ ٔکرامؓ نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ
زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ
سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔جوش اصلاح سے مغلوب ہوکر دیگر اہل ایمان کے
ان حقوق کی نادانستہ پامالی سے پر ہیز لازمی ہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’اور
جب انہوں نے بیہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ "ہمارے
اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا
سا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہتے" ۔فی زمانہ سوشیل میڈیا کی چہل پہل اس
دینی تقاضے کا پاس و لحاظ بہت بڑی آزمائش ہے۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
|