|
|
سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ لائف ان سعودی عرب میں ایک
مضمون میں ایک واقعہ بیان کیا گیا اس واقعہ کے مطابق ایک بوڑھا آدمی جس کے
ہاتھ اور پیر بڑھاپے اور کمزوری کے سبب کانپ رہے تھے ایک مسجد میں نماز کی
ادائیگی کے بعد کھڑا ہوا- |
|
اس نے ایک پکار لگائی اس بزرگ آدمی کی یہ
پکار نہ تو کسی قسم کی مالی مدد کے لیے تھی اور نہ ہی کھانے کے لیے بلکہ
مسجد میں نماز پڑھنے والے نمازی اس کی یہ پکار سن کر حیران رہ گئے جب اس نے
اعلان کیا کہ میری پانچ بیٹیاں ہیں کیا آپ ایسے افراد کو جانتے ہیں جو ان
سے شادی کر سکیں۔ |
|
کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو ایک نیک اور پرہیز
گار مسلمان ہو۔ ایسا فرد میری بیٹیوں کے رشتے کے لیے مجھ سے رابطہ کر سکتا
ہے۔ اگر کسی کو میرے گھر کا پتہ اس مقصد کے لیے چاہیے تو وہ امام مسجد سے
میرے گھر کا پتہ لے سکتا ہے- |
|
مضمون نویس کا یہ کہنا تھا کہ اس بزرگ آدمی
کی یہ صدا سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے- |
|
|
|
تنقید کے بجائے حوصلہ
افزائی |
مگر اس بزرگ کی یہ صدا جب لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے اس
آدمی کی حوصلہ افزائی کی نہ صرف تعریف کی بلکہ تنقید کے بجائے اس عمل کو
سراہا- یہاں تک کہ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں اس آدمی کی پانچوں بیٹیوں
کی نہ صرف شادی ہو گئی بلکہ نیک اور پرہیز گار افراد کے ساتھ وہ خوش و خرم
زندگی گزارنے لگيں- |
|
ہمارے معاشرے کا المیہ
|
اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ بیٹی کی شادی کے ليے خود
آگے بڑھ کر کہنا کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو
تنقید کا نشانہ بنایا جالے- |
|
عام طور پر معاشرے میں اگر کسی بھی لڑکی کی
شادی 25 سال کی عمر تک نہیں ہوتی ہے تو اس کے بعد اس لڑکی کے لیے رشتے آنا
بند ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی بیٹھی بوڑھی ہونے لگتی
ہے- |
|
جب کہ دوسری طرف اس لڑکی کے والدین خواہش کے
باوجود کسی سے اس کے رشتے کا تقاضا نہیں کر سکتے ہیں اور اس عمل کو معیوب
سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اس لڑکی کی زندگی غیر فطری انداز میں بسر ہونے
لگتی ہے اور اس کو کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہونے لگتا ہے- |
|
ام المومنین
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مثال |
ویسے تو ہم سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں
مگر اس وقت میں یہ مثال بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
شادی کرنے کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی خادمہ نفیسہ کے ہاتھ خود
پیغام بھیجا تھا- |
|
|
|
یہ پیغام بھیجنا اگر معیوب عمل ہوتا تو ہمارے
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کبھی قبول نہ کرتے مگر رحمت العالمین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ پیغام قبول کیا بلکہ ان کے ساتھ
ایک پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری- |
|
آج کے معاشرے میں جب کہ لڑکیوں کے والدین اپنی
بیٹیوں کی شادی جیسے فریضہ کو لے کر حد درجے پریشان ہیں ایسے والدین کے لیے
معاشرے کی روائتوں کو توڑ کر ایسا کرنا کوئی معیوب عمل نہیں ہے بلکہ یہ
ہماری ذمہ داری ہے کہ جن گھروں میں جوان بچیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی
ہیں ان کی مدد کریں- |
|
دوسری طرف لڑکیوں کے والدین کو بھی چاہیے کہ
امیر و کبیر لڑکوں کے رشتوں کی تلاش کے بجائے نیک اور پرہیز گار لڑکوں کے
رشتوں پر بھی غور کریں تاکہ ان کی بیٹیاں ان کے گھر میں بیٹھ کر بوڑھی ہونے
کے بجائے اپنی ازدواجی زندگی شروع کر سکیں- |