|
|
رمضان مبارک ایک ایسا مقدس مہینہ ہے جب مسلمان روزہ،
نماز اور دیگر مذہبی سرگرمیوں پر سختی سے عملدرآمد کرنے لگتے ہیں تاکہ
زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کیا جاسکے اور اپنی مغفرت اور بخشش کا سامان پیدا
کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مقدس میں مسلمان بڑھ چڑھ کر خیرات٬ صدقات
اور زکٰوۃ کی مد میں بھی اپنا مال خرچ کرتے ہیں جس سے ضرورت مندوں کی مدد
ہوجاتی ہے۔ |
|
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مہینہ پیشہ ور بھکاریوں
کے لیے بھی کمانے کا سیزن بن جاتا ہے جبکہ بھیک مانگنے کا پیشہ بھی اب ایک
پوری انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے- |
|
رمضان کی آمد سے چند روز قبل ہی یہ پیشہ ور بھکاری اپنے
خاندانوں کے ساتھ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کا رخ کرلیتے ہیں اور وہاں پہنچ
کر اپنے ڈیرے جما لیتے ہیں- رمضان میں آپ کو بےشمار ایسے پیشہ ور بھکاری
دکھائی دیں گے جو اچانک آپ کی گاڑی کے سامنے آکر کوئی نہ کوئی ایسا جملہ
ضرور بولیں گے جو براہ راست آپ کے دل پر اثر کرے گا اور آپ اسے رقم دینے پر
مجبور ہوجائیں گے- |
|
یہ پیشہ ور بھکاری رمضان کے دوران دوسروں کی سخاوت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور
ہر ہر بھکاری لاکھوں روپے ماہانہ کما کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتا ہے
لیکن بدقسمتی سے اس سارے سلسلے میں وہ انسان اپنے حق سے محروم رہ جاتا ہے
جو حقیقی معنوں میں آپ کی مدد کا مستحق ہوتا ہے- |
|
|
|
آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان پیشہ ور بھکاریوں کو
پہچانیں اور سختی سے کام لیتے ہوئے ان کی ہرگز مدد نہ کریں- یہ پیشہ ور
بھکاری پیسے بٹورنے کے لیے کئی پینترے استعمال کرتے ہیں- |
|
ان بھکاریوں کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے طریقوں میں آج کل
ایک معروف اور کامیاب طریقہ یہ بھی ہے کہ پورا خاندان بہترین حلیے میں سڑک
کے کنارے آ بیٹھتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ کوئی خاندان ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ
یہ سب ٹھیکے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور یوں دن بھر بیٹھ کر اچھی خاصی رقم
کما لیتے ہیں- |
|
ایسے حالات میں ہماری اور آپ کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے
کہ ہم حقدار تک اس کا حق پہنچائیں- اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ ہم اپنے
اردگرد اپنے رشتے داروں میں٬ اپنی برادری میں٬ اپنے بہن بھائیوں میں٬ اپنے
دوست احباب میں٬ اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں یہاں تک کہ اپنے پڑوسیوں میں
بھی دیکھیں ہوسکتا ہے وہاں آپ کی مدد کی زیادہ ضرورت ہو اور یہ لوگ حقیقی
معنوں میں مستحق ہوں- |
|
یہ ضروری ہے کہ ہمدردی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ صورتحال پر
قابو پایا جائے۔ بہت سے لوگوں کو حقیقی طور پر مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے،
خاص طور پر اس وقت جب افطار کے لیے کھانے اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری
کی وجہ سے اخراجات بڑھ سکتے ہیں- |
|
پاکستان کی عوام پہلے ہی مہنگائی سے ایک ایسی جنگ لڑ رہی
ہے جس میں روز بروز کے بنیادی اخراجات میں بھی روز کی بنیاد پر ہی اضافہ
ہوتا آرہا ہے جس کی وجہ سے ان اخراجات کو پورا کرنا بھی مشکل ہوتا جارہا
ہے- ایسے میں ہماری تھوڑی سی توجہ اور کوشش مہنگائی کی چکی میں پستی عوام
کی مشکلات میں کسی حد تک کمی کا سبب بن سکتی ہے جس سے آپ کے دل کو بھی وہ
خوشی اور سکون ملے گا جو کسی پیشہ ور بھکاری کو دے کر بھی حاصل نہیں ہوسکتا- |
|
|
|
بھکاریوں کو دیتے وقت احتیاط برتنا ضروری
ہے، کیونکہ ان میں سے اکثریت پیشہ ور کی ہوتی ہے۔ راہ چلتے بھکاریوں کو رقم
دینے کے بجائے ایسی جگہوں پر رقم عطیہ کریں جہاں آپ کو اس بات پر یقین ہو
کہ آپ کا عطیہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے گا اور یہ حقیقی معنوں میں
مستحقین تک پہنچے گا- |
|
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ غور ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں
کے علاوہ ہمیں ایسے دکانداروں کا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا جو رمضان کو صرف
کمائی کا سیزن سمجھتے ہوئے عام کھانے پینے کی چیزوں کو بھی کئی گنا زائد
داموں پر فروخت کرتے ہیں- ایسے دکانداروں کو اگر پیشہ ور ڈاکو کہا جائے تو
کچھ غلط بھی نہیں ہوگا- یاد رکھیں جن مہنگی چیزوں کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے
ان چیزوں کا بائیکاٹ کرنے سے ان کی قیمت میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے- اور
یہ بائیکاٹ بھی اس مصنوعی مہنگائی کے خلاف ایک جنگ ہی ہوگا- |
|
آخر میں اتنا ہی کہیں گے کہ یہ فیصلہ ہر فرد کو خود کرنا
ہے کہ وہ رمضان کے دوران اور سال بھر پیشہ ور بھکاریوں کے حوصلے کیسے پست
کرتا ہے۔ تاہم، ہمدردی اور کھلے ذہن کے ساتھ صورتحال سے رجوع کرنا ضروری
ہے، اور اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر ایک کو کسی منفرد جدوجہد اور
چیلنجز کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ |