میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
عزیزان من آج ہم اس تحریر میں کچھ دلچسپ ، اسلامی ، سبق آموز ، نصیحت آموز
اور ہمیشہ کام آنے والے واقعات کا مطالعہ کریں گے اور ان سے ملنے والے سبق
اور حاصل ہونے والی نصیحت کے بارے میں خلاصہ کریں گے اور کوشش کریں گے کہ
ہم بھی ان باتوں پر عمل کرکے باعمل ہوجائیں ۔سب سے پہلے میں اپنی اس تحریر
کا آغاز حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اور مکھیوں کے درمیان ہونے ولی اس
گفتگو سے کروں گا جسے حضور سیدنا مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ
نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مثنوی شریف میں اپنے بڑے خوبصورت اور منفرد انداز
میں بیان کیا ہے آپ علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم نے ایک شہد کی مکھی سے دریافت کیا کہ تم شہد کیسے بناتی ہو ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں شہد کی مکھی نے عرض کیا کہ ہم چمن میں
جاکر ہر پھول کا رس چوستی ہیں پھر وہ رس لئے اپنے چھتوں تک آجاتی ہیں اور
وہاں اسے اگل دیتی ہیں بس پھر اس کا شہد بن جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ پھولوں کا رس تو پھیکا ہوتا ہے اور شہد میٹھا
تو شہد میں یہ مٹھاس کہاں سے آتی ہے ؟ تو مکھی نے عرض کیا کہ اللہ تبارک
وتعالی نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب ہم چمن سے چھتے تک آتی ہیں تو آپ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم پر درود پاک پڑھتی ہوئی آتی ہیں شہد میں یہ لذت اور مٹھاس
اسی درود پاک کے برکت کی وجہ سے ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس واقعہ میں ہمیں درود پاک پڑھنے اور اس
سے حاصل ہونے والی برکت کا سبق ملتا ہے کہ جو لذت اور مٹھاس سے بھرا شہد ہم
لوگ استعمال کرتے ہیں وہ لذت اور مٹھاس اس میں درود پاک کی برکت سے ہی پیدا
ہوتا ہے ۔درود پاک کی برکتوں اور فضیلتوں کے بارے میں میرا ایک مضمون "
درود شریف کی برکتیں اور فضیلتیں " کے عنوان سے شایع ہوچکا ہے اس میں درود
شریف کی برکتوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے ۔
جناب حاتم طائی کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے غیر معمولی شجاعت اور
سخاوت کی وجہ سے ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا ایک دفعہ حاطم طائی
نے کہا کہ میں نے زندگی میں کئی علوم حاصل کئے مگر آخر میں چار باتوں پر
میں ٹھر گیا مطلب میرے سارے علوم کا خلاصہ چار باتوں میں پنہا تھا میں نے
انہیں اختیار کرلیا اور مطمعین ہوگیا پہلا علم جو میں نے حاصل کیا وہ یہ
تھا کہ جو رزق میرے نصیب میں لکھا ہے نہ تو مجھ سے وہ کوئی چھین سکتا ہے
اور نہ ہی کوئی اس میں کمی کرسکتا ہے اس لئے رزق کے معاملے میں میں بے فکر
ہوگیا۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دوسرے علم کے بارے میں اس نے بتاتے ہوئے
کہا کہ زندگی میں جو حق یعنی ذمہ داری اللہ رب العزت نے مجھے دی ہے وہ مجھے
ہی ادا کرنے ہیں بس پھر میں اس کے کاموں میں لگ گیا یعنی جو نیکی کا حکم
مجھے عطا کیا گیا میں اس میں مشغول ہوگیا ۔حاطم طائی نے اپنے تیسرے علم کے
بارے میں بے بتایا کہ ایک چیز جو مجھے ہر وقت دیکھتی ہے ڈھونڈتی ہے اور
میرے تعاقب میں رہتی ہے وہ ہے موت میں اس سے بھاگ نہیں سکتا اس نے آنا ہے
اور وہ آئے گی اس لئے میں نے اس سے سمجھوتہ کرلیا ۔چوتھا اور آخری علم جو
میں نے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ میں جان گیا ہوں کہ میرا رب مجھے ہر وقت دیکھ
رہا ہے میرے ہرکام سے باخبر ہے لہذہ اس خوف سے میں نے برے کام چھوڑ دیئے
اور گناہوں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ھاطم طائی کے بتائے ہوئے ان چار علوم کو
پڑھکر یہ سبق ملتا ہے اور اندازہ ہوتا کہ یہ چار علوم ہماری زندگی کے لئے
ایک اصول اور ایسی مشعل راہ ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں اپنالیا ان کے لئے
زندگی اتنی آسان اور مطمعن ہوجائے گی جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں
ہوگا اصل میں قران مجید فرقان حمید میں احادیث مبارکہ میں انبیاء کرام
علیہم السلام کے حالات میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اعمال میں بزرگان
دین کے واقعات میں اور اللہ تبارک وتعالی کے بتلائے ہوئے راستوں میں ایک
مکمل اور کامیاب زندگی گزارنے کے تمام اصول و ضوابط ہمیں صاف دکھائی دیتے
ہیں مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم زندگی گزارنے کے طریقوں کو دوسرے لوگوں
کی زندگیوں میں تلاش کرتے ہیں اور جب وہ میسر نہیں ہوتی تو گلہ شکوہ ہم
اللہ تبارک وتعالی سے کرتے ہیں۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگلا واقعہ میں نے حضرت مولانا محمد
ارسلان بن اختر کی کتاب "حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے بیان کردہ
واقعات"سے لیا ہے بخاری شر یف کے اندر حدیث کے اس واقعہ کو سات مرتبہ بیان
کیا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے اس واقعہ کو
صحابہ کے سامنے بڑے اہتمام سے بیان فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص
ایک ہزار دینار کا ضرورت مند تھا وہ سمندر پارکرکے دوسرے علاقے میں ایک
صاحب حیثیت کے پاس پہنچا اس سے جاکر ایک ہزار دینار قرض کے طور پر مانگے
صاحب مال نے کہا میں آپ کو پیسہ دے سکتا ہوں لیکن آپ کوئی گواہ تو لایئے
گواہ کون ہے ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس شخص نے کہا کہ میرے اور آپ کے درمیان
میں اللہ تبارک وتعالی ہی کافی ہے تو صاحب مال نے کہا کہ تو پھر کوئی کفیل
اوتر ذمہ دار لایئے تاکہ وقت پر اگر آپ قرضہ ادا نہ کرسکے تو میں آپ کے
کفیل سے وہ رقم وصول کرلوں گا اس ضرورت مند نے پھر یہ ہی کہا کہ میرے اور
آپ کے درمیان اللہ تبارک وتعالی ہی کافی ہے تو صاحب مال نے کہا کہ ٹھیک ہے
ایک مدت کا تعین کرکے ایک ہزار دینار اس کے حوالے کیئے تا کہ جب مدت پوری
ہوجائے تو آپ یہ قرضہ ہمیں واپس ادا کردیں ضرورت مند نے کہا ٹھیک ہے اس کے
بعد وہ واپس سمندر پار کرکے اپنے گھر پہنچ گیا اور اپنی ضرورتیں پوری کیں۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب قرضہ کی مدت پوری ہوگئی تو وہ شخص ایک
ہزار دینار لیکردوسری سمت قرض خواہ کو رقم لوٹانے کی غرض سے جانے کے لئے
سمندر پر پہنچ گیا یہاں وہ کشتی تلاش کرنے لگا لیکن اسے کوئی کشتی نہ ملی
اسے خدشہ ہوا کہ قرض ادا کرنے سے پہلے کہیں مدت پوری نہ ہوجائے وہ سمندر
میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن اسے کوئی سواری نہیں ملی آخر کار ایک لکڑی
میں سوراخ کیا پھر اس نے ایک ہزار دینار اور ایک پرچی اس سوراخ میں رکھ دی
پرچی پر اس نے لکھا تھا کہ " اے سمندر میرا قرضہ اتارنے میں صرف تو ہی حائل
ہے لہذا اب میں اپنا قرضہ تیرے حوالے کرتا ہوں اب تو ہی ذمہ دار ہے " گویا
پرچی اور دینار سوراخ میں رکھکر سوراخ بند کردیئے اس کے بعد اس لکڑی کو
سمندر میں یہ کہکر بہا دیا کہ اب تو ہی ذمہ دار ہے اور اللہ تبارک و تعالی
سے دعا کی کہ " اے اللہ میرے قرضہ ادا کرنے میں یہ سمندر ہی حائل ہے میں
تجھے گواہ بناتا ہوں اور تو ہی میرا کفیل ہے "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب قرض کی مدت پوری ہونے لگی تو صاحب مال
قرضہ واپس لینے کی غرض سے جانے کے لیے سمندر پہنچ گیا لیکن اسے بھی کوئی
کشتی نہ ملی اسے ایک لکڑی آتے ہوئے نظر ائی تو اس نے اٹھالی اور گھر لے گیا
جب اسے چیرا تو اس میں ایک ہزار دینار اور ایک پرچی اسے مل گئی جسے پڑھکر
وہ بہت متاثر ہوا لیکن کچھ روز کے بعد قرضدار کے دل میں خیال آیا کہ نہ
جانے لکڑی میں رکھی پرچی اور پیسے اسے ملے یا نہیں لہذہ وہاں وہ قرضدار
اپنے طور پر ایک ہزار دینار لےکر دوبارہ صاحب مال کے پاس پہنچتا ہے اور عرض
کرتا ہے کہ یہ لو آپ کا قرضہ تو اس نے کہا کہ آپ کا قرضہ اور پرچی مجھے مل
گئی ہے تو اسے اطمنان ہوگیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جو اللہ
تبارک وتعالی کا ہوجاتا ہے اللہ رب العزت بھی اس کا ہوجاتا ہے یعنی اگر ہم
اللہ تبارک وتعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اللہ رب العزت سے ڈرتے رہیں
اور اپنا زیادہ تر وقت نیکی کے کاموں میں صرف کریں تو اللہ رب العزت ہمیں
بھی غیب سے مدد کرے گا اور آسانیاں پیدا کردے گاہر چیز کو اس کا تابع کردے
گا چاہے وہ سمندر ہو یا درخت کی کوئی لکڑی اور اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے
اس کے ساتھ یہ غیبی مدد اس لئے ہوتی ہے کہ وہ اللہ رب العزت سے محبت کرتا
ہے کیوں کہ امانت کی ادائیگی دراصل اللہ رب العزت سے محبت کی علامت ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں امام حاکم شہید نے مستدرک حاکم میں حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی روایت نقل کی ہے جو صحیح سند کے ساتھ مروی
ہے اس حدیث کو امام منزری رحمتہ اللہ علیہ نے الترغیب والترہیب میں نقل کیا
ہے عربی عبارت کافی لمبی ہے اس لئے یہاں اس حدیث کا خلاصہ بتایا جارہا ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم نے گھر سے باہر تشریف لاکر فرمایا کہ ابھی میرے دوست حضرت جبرائیل
علیہ السلام تشریف لائے تھے اور فرمایا کہ پچھلی امتوں میں سے ایک شخص اپنا
گھربار مال و دولت عزیزواقارب سب کچھ چھوڑ کر سمندر کے بیچ میں پہاڑ نما
ایک ٹیلہ تھا اس میں جاکر عبادت کرنا شروع کردی وہ سمندر بڑا وسیع تھا لیکن
وہاں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا پانی بھی بہت نمکین تھا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک تعالی نے اپنے فضل سے ایک انار
کا درخت اگا دیا اورایک انگلی کے برابر ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا
یہ عابد شخص دن رات کے چوبیس گھنٹے عبادت میں گزاردیتا اور چوبیس گھنٹے میں
ایک انار کا پھل کھالیتا اور چشمہ سے ایک گلاس پانی نوش فرمالیتا اسی حالت
میں پانچ سو سال گزر گئے جب پانچ سو سال کے بعد موت کا وقت قریب آیا تو اس
نےاللہ تبارک وتعالی سے دعا مانگی کہ میری روح سجدے کی حالت میں پرواز کر
جائے اور اس کی نعش کو مٹی وغیرہ ہر چیز پر حرام کردے اور قیامت تک سجدے کی
حالت میں صحیح و سالم رہے اللہ رب العزت نے اس کی دعا قبول فرمائی سجدے کی
حالت میں اسے موت نصیب ہوئی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بروز قیامت اس عابد شخص کو اللہ تبارک
وتعالی کے دربار میں حاضر کیا جائے گا تو اللہ رب العزت فرشتوں سے فرمائے
گا کہ اس کو میرے فضل سے جنت میں داخل کردو تو وہ عابد کہے گا کہ مجھے میرے
عمل کے بدلے جنت میں داخل کردیجیئے میں نے پانچ سو برس تیری عبادت ایسے کی
ہے جس میں ریاکاری کا شائبہ تک نہیں تھا تو اللہ تعالی پھر فرمائے گا کہ
اسے میرے فضل سے جنت میں داخل کردو تو وہ پھر کہے گا کہ مجھے میرے عمل سے
جنت میں داخل کیجیئے تو اللہ تبارک وتعالی فرمائے گا کہ اس کے اعمال اور
میرے فضل سے دی ہوئی نعمتوں کا موازنہ کرو ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب موازنہ کرکے دیکھا جائے گا تو جو اللہ
تبارک وتعالی نے اسے بینائی عطا فرمائی تو صرف یہ ایک نعمت اس کے پانچ سو
سال کی عبادت کے سارے اعمال کا احاطہ کر لے گی اس کے پورے جسم کی باقی
نعمتوں جن میں آنکھ ناک کان زبان ہاتھ پیر اور دل و دماغ جیسی نعمتوں کا
بدل باقی رہ جائے گا پھر اس کے علاوہ پانچ سو سال تک انار کا پھل کھلایا
اور میٹھا پانی پلایا اس کا بدل بھی باقی رہ جائے گا تب اللہ رب العزت
فرمائے گا کہ
" اس کی پانچ سو سال کی عبادت تو صرف ایک
نعمت کے بدلے میں ختم ہوگئی ہماری باقی نعمتوں
کا بدل کہاں ہے لہذہ اب اسے جہنم میں ڈال دو "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں فرشتے اس عابد شخص کو گھسیٹتے ہوئے جہنم
کی طرف لے جارہے ہوں گے تو وہ چلائے گا میرے رب مجھے اپنے فضل سے ہی جنت
میں داخل فرمادیجیئے تو رب فرمائے گا تجھے اپنے پانچ سو سال کی عبادت پر
بڑا ناز تھا اب تیری عبادت کہاں چلی گئی اتنے خطرناک سمندر کے بیچ میں تجھے
میں نے انار کے پھل کھلائے اور پانچ سو برس تک تجھے مسلسل میٹھا پانی پلایا
ان نعمتوں کے بدلے تم کیا لائے ہو تو وہ کہے گا کہ مالک اپنی رحمت سے مجھے
جنت میں داخل کردیجیئے تیری رحمت کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا پھر جب حجت
تمام ہوجائے گی تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ میری رحمت اور فضل سے اس کو جنت
میں داخل کردو تو پھر وہ صرف اللہ کی رحمت سے ہی جنت میں داخل ہوسکے گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس خوبصورت واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ
اگر اللہ تبارک وتعالی کسی کو یہ توفیق عطا کردے کہ وہ نیک اعمال کرنے میں
مصروف عمل ہوجائے تو اسے یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ بروز محشر میرے
نیک اعمال کے سبب میں جو چاہوں گا میرا مالک مجھے عطا کردے گا بلکہ اسے ہر
وقت اور ہر لمحہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور اگر اللہ تبارک وتعالی
نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق دی ہے تو اس کی نعمت سمجھکر اس کا شکر ادا
کرے کیوں کہ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے بہت بڑا انعام اور توفیق ہے اگر
توفیق نہ ہو تو کوئی نیک اعمال کر ہی نہیں سکتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آج کی تحریر میں چار واقعات ہم نے پڑھے
اور میں نے کوشش کی ہے کہ ان واقعات سے ہم جو کچھ سیکھ سکتے ہیں نہ صرف وہ
سیکھیں بلکہ آگے بھی لوگوں کو بتائیں سوچیئے اگر کوئی ایک شخص بھی ان
واقعات کو پڑھکر اس پر عمل کرنا شروع کردے تو آپ کے لئے یہ صدقہ جاریہ
ہوجائے گا اور جب تک وہ عمل کرتا رہے گا آپ کو بھی ثواب ملتا رہے گا اللہ
رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں اپنے حکم کی فرمانبرداری
کرنے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے عشق میں مصروف عمل کردے
اچھی اور نیک باتوں کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
|