بارے"مساجد"کا کچھ بیاں ہوجائے

اس عنوان پردومضمون میں اپنی بلاگنگ سائٹ پرنشرکرچکاہوں۔یہ پہلاحصہ ہے،جس میں تفصیلا" بتایاگیاہےکہ اسلام میں مساجدکوکیااہمیت حاصل ہےاورمسجدنبویؑ دورِنبوی میں کن اعمال سےآبادتھیجبکہ دوسرےحصےمیں مساجدکےبارےمیں عموما" ہونےوالی کوتاہیوں پربات کی گئی ہے

ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم نےاللہ کےرسول علیہ السّلام سے دریافت کیاکہ اللہ تبارک تعالیٰ کےنزدیک دنیامیں بہترین جگہیں کون سی ہیں؟فرمایا(جس کامفہوم ہےکہ) "اللہ تعالیٰ کےنزدیک دنیامیں بہترین جگہیں مساجدہیں اوربدترین جگہیں بازارہیں"۔ ہمارےیہاں مساجد کاانتظام عام طورپرعوام کےچندوں سے کیاجاتاہے۔اس بارےمیں اپنےبلاگ"بھکاری"میں لکھ چکاہوں۔ مگرضروری نہیں کہ ہرجگہ ایساہی ہو،یعنی یہ کوئی قاعدہ کلّیہ نہیں۔ میں نےایک مہتمم صاحب سےخود سناکہ انہوں نےکبھی اپنی مسجدکےلئےکسی کےآگےہاتھ نہیں پھیلایا۔بلکہ مسجد تعمیرکرتےوقت باہرچاروں طرف دوکانیں نکالی گئیں، جن کےکرائےسےاخراجات کوپورا کیاجاتاہے۔ ان کایہ بھی کہناتھاہمارےپاس جوبھی آتاہے،بندمٹھی آتاہے۔ اگرکوئی ہمارانام لےکرچندہ مانگنےآئےتوسمجھ لیں کہ جھوٹاہے۔ یہ ایک اچھی مثال ہے،ورنہ میں نےیہ بھی دیکھاکہ جمعہ کی نمازسےپہلے(بڑی مساجدمیں بھی) دوآدمی جھولی پکڑے ہوئےصفوں میں بیٹھے ہوئےلوگوں کےسامنےسے گزرتےچلےجاتےہیں اورلوگ اس جھولی میں نوٹ اورسکےڈالتےرہتےہیں۔ یقیناََعلمائےکرام اس عمل کی کوئی توجیہہ ضرورپیش کرتےہوں گے۔ غالباََیہ کہ حضورﷺ نےبھی دینی کاموں کےلئےچندےکی اپیل کی تھی اورصحابہ رضی اللہ عنہم سےچندہ جمع فرمایاتھا۔ لیکن کیاآپ کےخیال میں کیایہ چندہ مسجدکےلئےکیاگیاتھا؟نہیں۔بلکہ ہمیں توتاریخ میں یہ ملتاہےکہ سن9ھجری تک جب کہ فتوحات کازمانہ شروع ہوچکاتھا اورصحابہ رضی اللہ عنہم میں ایسےمالدار بھی تھے کہ ایک تہائی لشکرکاسامان بھی اپنی جیبِ خاص سےمہیاکرسکتےتھے، مسجدِنبوی علیہ السّلام میں روشنی کاکوئی بندوبست نہیں تھا۔ واقعہ مشہورہےکہ ایک بدّوآیا اورمسجدمیں پیشاب کرنےبیٹھ گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اسے روکنےکودوڑے مگرحضورعلیہ السّلام نےمنع فرمایاکہ اسےاپنی ضرورت سےفارغ ہونےدو۔جب وہ فارغ ہوگیا توصحابہ سے فرمایاکہ اس جگہ پانی بہادو۔اوراس کوبلاکرآدابِ مسجدسکھلائے۔ آپ کاکیاخیال ہےکہ اسے پتہ تھا کہ وہ مسجدمیں بیٹھ رہاہے؟ نہیںِ بلکہ وہ دراصل حدودِ مسجدتھی،جہاں وہ بیٹھاتھا اوراس جگہ کی کوئی خاص نشانی مقررنہ تھی، جس سےمسجد کی پہچان ہوپاتی، بلکہ دیگرجگہوں کی طرح ایک عام سی جگہ تھی۔اسی وجہ سے اس بدّوکوغلط فہمی ہوئی۔ ہمارےیہاں مسجد کاکیاتصوّرہے؟اس کی مثال ایسے واضح کرتاہوں کہ اگر کسی کےسامنے"اسکول"کہاجائےتواس کےذہن میں کمرہءجماعت، تختہءسیاہ، مخصوص لباس زیبِ تن کئے طلباءوطالبات اوران کوپڑھاتےاساتذہ آئیں گے۔ اسی طرح اگرمساجدکاذکرکیاجائےتوذہنوں میں وضوخانہ، منبرومحراب، صفیں، اذان ونمازوغیرہ آتےہیں۔ مساجدکی حقیقت کیاصرف یہی ہےکہ وہاں پنج وقتہ نماز کےلئے وہ لوگ جمع ہوں، جومعاشرےمیں نمازی کہلاتےہیں۔ ہمارےیہاں رواج پڑگیاہےکہ اذان سےپہلے اعلان کیاجاتا ہےکہ اپنےکام کاج چھوڑکراذان کاجواب دیں اورڈھیروں نیکیاں حاصل کریں۔ حالاں کہ کہنایہ چاہئےکہ اس وقت کی اذان ہورہی ہے۔آپ اپنےکام کاج چھوڑکرنمازکی تیاری کریں۔ دیکھنے میں آرہاہےکہ واقعی لوگ اذان کےوقت اپنےکاموں سے ہاتھ روک لیتےہیں اوراذان ختم ہوتےہی کام دوبارہ شروع۔ اوراسےبڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ خیر!یہ توسبیلِ تذکرہ ہوگیا، کہنایہ تھاکہ مساجد درحقیقت اسلام کےقلعےہیں اورشریعتِ مطہّرہ میں ان کی تعمیرکا صرف وہ مقصدنہیں جوہمارےذہنوں میں ہے(یعنی صرف ادائیگئِ نمازاورپھرتالے)بلکہ اگرہم تاریخِ اسلامی کا جائزہ لیں تومسلمان جس علاقےکوبھی فتح کرتےتھے،سب سے پہلےوہاں مسجدبناتےکیوں کہ مساجد اسلامی معاشرت کی بنیادہیں۔ انہی سےدین پھیلتاہے۔ اوراسلامی معاشرت پھلتی پھولتی ہے۔ جب مساجدکےاندراللہ کے جواحکامات ہیں،انہیں جنابِ رسول اللہﷺ کےمبارک طریقوں سےپورا کیاجاتاہے،توپھرگھروں اوربازاروں وغیرہ کادین زندہ ہوتاہے۔ آپ یہ چاہیں کہ نمازکےبعد مساجدکو تالےلگادئے جائیں اورگھروں میں دین زندہ ہو، بازاروں میں دین داری کی ہوائیں چلیں،ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ اگرہمیں یہ دیکھناہےکہ مسجد کادین کیاہے تورسول اللہﷺ کی مدنی زندگی (جوتقریباََدس سال کاعرصہ ہے)میں جواعمال مسجدِنبوی علیہ السّلام میں کئے جاتےتھے، ان کاجائزہ لیناہوگا،ساتھ ہی اُس مسجدکی ظاہری حالت بھی ذہن میں رہے۔ یعنی کچا فرش، کھجور کےتنوں سےبنےہوئےستونوں اوراسی کےپتوں کی چھت، جوبارش میں ٹپکتی تھی اورمسجدمیں کیچڑہوجاتاتھا، ان ظاہری حالات کےساتھ کتنےبڑے بڑے معرکوں اورفتوحات کی بنیاداسی مسجدمیں رکھی گئی۔ اسی مسجدمیں جبریل ِامین علیہ السّلام حکامات لےکرآتے تھے۔ صحابہ فرماتےہیں کہ بارش کی طرح احکامات آتےچلےگئے اورہم ان پرعمل کرتےچلےگئے۔ مگرحیرت ہےکہ اللہ پاک نےمسجدکوپختہ کرنےکےبارے میں کوئی حکم نازل نہیں فرمایا،جب کہ مال کی تقسیم کےواضح احکامات اُترچکےتھے۔ اس مضمون کایہ مقصدہرگزنہیں کہ ہمارے دورکی مساجدکوسہولیات سے محروم کردیاجائے،بلکہ مساجدکی ظاہری زیب وزینت سےزیادہ مسجدِ نبوی علیہ السّلام کی طرزپران کی آبادی کی فکرکی جائے

دیکھناچاہئےکہ دورِنبوی علیہ السّلام میں مسجدکی آبادی کی کیا صورت تھی۔ ایک رواج(جواب بھی حرمِ نبویﷺمیں رائج ہے) یہ تھاکہ آدھی رات کواذان ہواکرتی،جس کامطلب یہ تھاکہ وہ حضرات،جونمازِعشاءکےبعدسےمسجدمیں موجودہیں، اب اپنےگھروں میں جاکرآرام کریں اوروہ جوبعد نمازِعشاءگھروں کوجاچکےہیں، اب مسجدمیں تشریف لےآئیں، تاکہ مسجدرات بھرآبادرہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کایہ عام معمول تھاکہ آدھی رات مسجدمیں اورآدھی گھرپر، اسی طرح آدھادن مسجدمیں اورآدھااپنےفکرِمعاش میں۔ سوال یہ ہےکہ مساجدمیں ایساکون ساعمل ہورہاتھا جواتنے لوگوں کےاتنازیادہ وقت دینےکامتقاضی تھا۔ سب سے پہلےتووہاں اعلائےکلمۃاللہ کی محنت ہورہی تھی۔ جس کےتحت چہاراطراف،قرب وجوارمیں بسنے والے انسانوں تک پیغامِ الٰہی کوپہنچایاجاتا۔ اس مقصدکےلئے مسجد میں مختلف علاقوں سےآنےوالےقافلوں کےذریعے معلوم ہونےوالےحالات کی روشنی میں مشورےسےدعوتِ دین ان تک پہنچانےکالائحہءعمل تیارکیاجاتا۔ مثلاََ کن لوگوں کو،کتنی تعدادمیں اورکتنےوقت کےلئے وہاں بھیجنا فائدہ مندہوسکتاہے۔ ان مناسب ترین احباب کاانتخاب کرنے کےبعدان پرایک سربراہ مقررکرکےراستےمیں اوراس مقام پرپہنچنےکےبعد دعوتِ دین کاکام کس طرح کرناہےاس بارے میں مکمل ہدایات دی جاتیں۔ اسی طرح واپس آنےوالےافرادسےسناجاتاکہ انہوں نے اپنے ذمے لگائےگئےعلاقے میں کس طرح کام کیااورانہیں کیاکامیابی ملی؟ اکثرواپس آنےوالےاپنےساتھ کئی نومسلموں کو دین سکھانےکےللےکرآتے،جن کومسجدمیں ٹھہرایاجاتا (اگرخواتین بھی ساتھ ہوتیں توانہیں صحابہ کےگھروں میں مہمان بنالیاجاتا)۔ ان نئےآنےوالےمہمانوں کااستقبال اورانہیں دین کی باتیں سکھانا،اُمُورِمسجدمیں شامل تھا۔ ان مہمانوں کی خدمت کےلئےالگ سےکوئی فنڈقائم نہیں تھا،بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم ان میں سےاپنی استعداد کےمطابق مہمانوں کواپنےگھروں میں لےجاتے اورتواضع فرماتے۔ یہی لوگ واپس اپنےعلاقوں میں جاکر اپنے لوگوں کودین سکھاتے۔ اسی طرح قرآن پاک کےنازل ہونےاوراحکامِ الٰہی کی تشریح بصورتِ احادیث نشر ہونے کا سلسلہ مستقل جاری تھا۔ کچھ صحابہ ان احادیث کولکھنےپرمامورتھےکہ زبانِ نبوت سےجومبارک الفاظ نکلتے، فوراََ ضبطِ تحریرمیں لائےجاتے۔پھرانہیں یادکرنےاورعام کرنےکااہتمام کیاجاتا۔چندصحابہ رضی اللہ عنہم گول دائرےکی صورت بیٹھ جاتےاورترتیب واران باتوں کودہراتے۔ یوں پڑھےلکھےیا ان پڑھ،سب کویہ باتیں ذہن نشین ہوجاتیں۔ یاد کرنےکایہ طریقہ مذاکرہ کہلاتاہے۔ حضورعلیہ السّلام نےسیکھنےسکھانےکی ان مجالس کو انتہائی پسندفرمایا اوربذاتِ خود ان صحابہ کےدرمیان تشریف فرماہوئے۔ اللہ پاک کےذکرکی مجالس بھی مساجد میں مستقل منعقد ہوتی رہتیں۔ جیساکہ انسانی طبیعت خلوت اورجلوت، ہردوطرح کی ہوتی ہے۔علم کاحاصل کرنا ظاہری معاشرت کی درستگی کےلئےہےتوباطنی اصلاح کےلئےشریعتِ مطہرہ نےتنہائیوں میں اپنےاللہ سے لو لگانےکی ترغیب دی ہے۔ آپ علیہ السّلام ایک مرتبہ مسجدمیں تشریف لائےتوایک جماعت اس طرح بیٹھی تھی کہ اکثرکےجسم پر(غربت کی وجہ سے)کپڑے بھی پورے نہ تھے۔ یہ لوگ ذکرِالٰہی میں اس قدرمنہمک تھےکہ آقاﷺ کےتشریف لانےکی اوّلاََ توانہیں خبرہی نہ ہوئی۔ جب آپﷺ بالکل قریب تشریف لےآئےتومسرٹ سےدریافت فرمایا(جس کامفہوم ہے)کہ تم لوگ کیاکررہےتھے۔عرض کیاکہ اللہ کاذکرکررہےتھے اوراس بات پراس کی حمدوثناء کررہےتھے کہ اس نےہمیں مسلمان بنایا۔ آپﷺ نے فرمایا(جس کامفہوم ہے)کہ اللہ نےمجھے حکم دیا کہ تم لوگوں کےساتھ بیٹھوں اوراللہ پاک تمہاراذکرتفاخرکے ساتھ فرشتوں کی مجلس میں کررہےہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ مسجدمیں آنےوالوں کی خدمت گزاری صحابہ رضی اللہ عنہم کامستقل معمول تھا۔ ان کےاموال کابیشترحصہ فقراء، مساکین کی امدادپرخرچ ہوتا۔ لشکروں کی روانگی کےاوقات میں جہاں ضرورت ہوتی، آقاعلیہ السّلام بذاتِ خود چندے کی اپیل فرماتےاورصحابہ اکثراپنے گھروں کاسارامال ومتاع خدمتِ اقدس میں پیش کردیتے۔ جانی ومالی ہردوطرح سےاپنےبھائیوں کی مدد کرناصحابہ رضی اللہ عنہم کاوطیرہ تھا۔ یہاں تک کہ جوغیرمسلم مسجدِ نبوی علیہ السّلام میں، جنگوں میں قیدی بناکرلائےجاتے، صحابہ اپنےگھروں میں تنگی کےباوجود ان کےکھانےاورآرام کابھرپورخیال رکھتے۔ اکثرغیرمسلم قیدی،صحابہ کےاسی طرزِ عمل کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ چاروں اعمال یعنی اشاعتِ دین، سیکھنااورسکھانا،اللہ کویاد کرنا اورخدمت گزاری، مساجدکی آبادی کےلئےضروری ہیں۔ انہی اعمال سے دین کےپوری دنیامیں پھینےکی بنیاد پڑی ہےاورصحابہ رضی اللہ عنہم پوری دنیامیں جہاں بھی گئے،انہوں نےسب سے پہلےمسجدبناکران میں انہی اعمال کوجاری کیا۔

Hafiz Irshad Ahmed Chawla
About the Author: Hafiz Irshad Ahmed Chawla Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.