میں تھانے سے بات کررہا ہوں ہم آپ کے بیٹے کو۔۔۔ فراڈ جو پاکستانیوں کو آسانی سے بےوقوف بنا رہا ہے کہیں آپ بھی تو اس کا شکار نہیں ہوئے؟

image
 
یہ چند روز پہلے کی بات ہے جب وومن چیمبرز آف کامرس کی موجودہ صدر شکیلہ بانو لاہور میں اپنے آفس میں اپنی بڑی بہن اور کچھ دوسرے کولیگز کے ساتھ موجود تھیں کہ اچانک ان کی بہن کے فون پر ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔ یہ تقریباً دوپہر ڈھائی بجے کا وقت تھا۔
 
کال کرنے والے نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ’کیا آپ نبیلہ (فرضی نام) بات کر رہی ہیں۔‘
 
جب کال کرنے والے کو جواب ’ہاں‘ میں ملا تو اس نے کہا کہ ’ہم آپ کے بیٹے کو لے کر جا رہے ہیں۔۔۔‘
 
نبیلہ یہ سنتے ہی کافی پریشان ہو گئیں اور انھوں نے فوراً ہی فون کا سپیکر آن کر دیا۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شکیلہ بانو نے بتایا کہ ان کے دفتر میں موجود ان کی بہن پہلے تو فون پر آرام سے بات کر رہی تھیں لیکن جب انھوں نے بیٹے کے متعلق سُنا تو ان کی آواز بلند ہو گئی اور انھوں نے فوراً فون کا سپیکر آن کر دیا۔ نبیلہ اس دوران کال کرنے والے سے مسلسل پوچھتی رہیں کہ وہ ان کے کون سے بیٹے کو اور کیوں لے جا رہے ہیں، اور یہ کہ اس نے کیا کیا ہے؟
 
نبیلہ کے دو بیٹے ہیں جن کی عمریں بالترتیب 19 اور 22 سال ہیں۔
 
کال کرنے والے نے بڑی بدتمیزی سے دریافت کیا کہ ’تمھارا بیٹا ہے اور تمھیں اس کے نام بھی نہیں پتا۔‘
 
شکیلہ بانو کے مطابق ان کی بہن نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے نام جانتی ہیں اور اسی لیے پوچھ رہی ہیں کہ کس بیٹے کو لے کر جا رہے ہو؟
 
اتنی دیر میں سپیکر پر لگے فون سے کسی بچے کے رونے کی آواز آنے لگی جو چلا رہا تھا کہ ’ماما یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں، مجھے بچا لیں۔‘
 
شکیلہ بانو کے مطابق ان کی بہن اس دوران گھبراہٹ کے عالم میں لگاتار فون کرنے والے سے پوچھتی رہیں کہ وہ کون ہیں اور ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
 
شکیلہ کے مطابق پہلے ہم نے سوچا کہ شاید بچوں کی کہیں لڑائی ہو گئی ہو گی مگر کال ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد مجھے کچھ کھٹکا کہ میری بہن کے بچے تو کافی بڑے ہیں لیکن جو رونے کی آوازیں انھیں فون پر سنائی گئی تھیں وہ کسی چھوٹے بچے کی تھیں۔
 
image
 
اسی پریشانی اور سوچ کے عالم میں شکیلہ بانو اور ان کی بہن نے دونوں بچوں کے نمبروں پر کالیں کرنا شروع کر دیں لیکن بچوں کے نمبرز پر رابطہ نہیں ہو رہا تھا جس سے ان کی والدہ کی پریشانی مزید بڑھنے لگی کہ کہیں یہ بات واقعی میں سچ نہ ہو۔
 
شکیلہ بانو کے مطابق کافی دیر کوشش کرنے کے بعد بالآخر چھوٹے بیٹے سے بات ہو گئی اور جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ کالج میں پیپر دے رہا تھا اور ابھی فارغ ہوا ہے۔
 
مگر چونکہ دوسرے بیٹے سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اس لیے ماں کی پریشانی یقین میں بدلتی جا رہی تھی کہ شاید مبینہ اغوا کار ان کے دوسرے بیٹے کو ساتھ لے گئے ہیں۔
 
شکیلہ بانو کے مطابق جس انجان نمبر سے کال آئی تھی ہم نے انھیں دوبارہ کال کی اور کہا کہ بچے سے بات کروائیں، مگر اس کے جواب میں دوبارہ وہی رونے کی آوازیں اور بچے کی التجائیں سُنا دی گئیں کہ ’ماما یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں۔۔۔‘
 
شکیلہ بتاتی ہیں مگر اسی دوران ہمارا دوسرے بچے سے بھی رابطہ ہو گیا اور اس نے بتایا کہ کہ وہ کہیں مصروف تھا اس لیے کال نہیں اٹھا سکا۔
 
شکیلہ بانو کے مطابق دونوں بچوں کی خیریت کی خبر سُن کر انھوں نے دوبارہ مبینہ اغوا کاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر تھوڑی دیر میں وہ نمبر بند ہو گیا۔
 
شکیلہ بانو کے مطابق وہ آدھ پون گھنٹا ان کی زندگی کا سب سے اذیت ناک وقت تھا۔ اُن کے مطابق ان کی بہن کو خوف کی اُس کیفیت سے نکلنے میں کئی گھنٹے لگ گئے تھے اور ’ہم اگر اس وقت باجی کے پاس نہ ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ جلد بازی اور گھبراہٹ میں انھیں پیسے بھی بھجوا دیتیں۔‘
 
image
 
مگر یہ سب کیا معاملہ تھا اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک اور کیس پر بھی نظر دوڑا لیتے ہیں۔
 
’ہیلو ماہا آپی میں ہادی بول رہا ہوں۔ میں اپنی ایک دوست سے ملنے فیصل آباد آیا ہوا تھا مگر مجھے پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ آپ پلیز ماما، پاپا کو نہ بتانا، یہ مجھے مار رہے ہیں آپ پلیز مجھے بچا لیں۔‘
 
ماہ نور کو یہ فون کال اس وقت موصول ہوئی جب وہ اپنے آفس میں کام میں مصروف تھیں۔ ماہ نور ایک نجی ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔
 
چند سینکڈ کی اس کال نے ماہ نور کے ہوش اڑا دیے کیونکہ ہادی اس کی ایک کزن کا جواں سال بیٹا تھا۔
 
ابھی ماہ نور کی بات جاری ہی تھی کہ بظاہر ہادی سے فون چھین کر ایک دوسراشخص ماہ نور سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’ہم صدر تھانہ فیصل آباد سے بول رہے ہیں اور آپ کے کزن ہادی کو ایک لڑکی کے چکر میں ہم نے پکڑ لیا ہے اور اب مزید کاروائی کرنے لگے ہیں۔‘
 
ماہ نور اس اچانک صورتحال سے گھبرا گئیں اور اسی دوران فون کرنے والے نے کہا کہ ’اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے کزن کے خلاف ریپ کیس درج نہ ہو تو کچھ پیسوں کا فوری بندوبست کریں تاکہ معاملہ رفع دفع کیا جا سکے۔ 50 ہزار سے ڈیل شروع ہوتے ہوتے 25 ہزار اور پھر 15ہزار پر فائنل ہو گئی۔‘
 
ماہ نور کے مطابق وہ کنفیوژ ہو گئی تھیں اور اس کے بعد فون کرنے والے نے ایک نمبر شیئر کیا کہ اس پر جاز کیش کروا دیں۔
 
اسی دوران ماہ نور کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ چینل کے فیصل آباد بیورو سے رابطہ کیا جائے اور وہاں سے کسی کو تھانے بھیجا جائے تاکہ حقیقت معلوم کی جا سکے۔ چونکہ معاملہ اس نوعیت کا تھا اس لیے ماہ نور نے خاندان میں کسی سے بات نہیں کی۔
 
ماہ نور نے فیصل آباد بیورو سے اپنے ایک کولیگ کو تھانہ صدر فیصل آباد بھیجا جس نے پتا کرکے بتایا کہ ان کے پاس تو ایسا کوئی کیس نہیں آیا۔ ماہ نور کے مطابق ابھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ کیا کریں اسی دوران اسی انجان نمبر سے دوبارہ کال آئی اور ماہ نور نے انھیں بتا دیا کہ انھوں نے تھانے سے پتا کروایا ہے لیکن وہاں تو ایسا کوئی کیس نہیں، جس پر کالر نے شدید غصے کا اظہار کیا کہ انھوں نے خود سے تھانے کیوں رابطہ کیا ہے۔
 
کالر نے ماہ نور کو بتایا کہ وہ اب ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کو لے کر ہسپتال جا رہے ہیں میڈیکل کروانے اور اب اگر اپنے کزن کو بچانا ہے تو اب پیسے زیادہ ہی دینے پڑیں گے۔
 
ماہ نور کے اصرار پر کال کرنے والوں نے پھر ہادی سے بات کروائی کہ آپی مجھے بچا لو یہ مجھے مار رہے ہیں۔ اسی دوران ماہ نور نے کرائم کی بیٹ کور کرنے والے اپنے ایک دوست کو کال کر کے ساری صورتحال بتائی جس نے کہا کہ فوری طور پر پہلے ہادی کے گھر فون کریں ۔ماہ نور کے مطابق جب اس نے ہادی کے گھر فون کیا تو ہادی گھر پر ہی موجود تھا۔
 
ماہ نور نے بتایا کہ اس اچانک صورتحال اور پھر کال کرنے والوں کا اس کا نام لے کر بات کرنا اور کزن کا نام بھی بتانا، اس سے وہ پریشان ہو گئی تھیں اور وہ سمجھ رہی تھی شاید اس کے کزن کے ساتھ واقعی کچھ ایسا ہو گیا ہے۔
 
image
 
تو معاملہ ہے کیا؟
آپ کو اگر خود کوئی ایسی کال موصول نہیں بھی ہوئی تو آپ کے کسی عزیز یا جانے والے کو کسی انجان نمبر سے ایسی کال ضرور آئی ہو گی جس میں کال کرنے والا آپ کا نام لے کر آپ کو مخاطب کرتا ہے اور وہ آپ سے آپ کے شناختی کارڈ نمبر، اے ٹی ایم کارڈ نمبر، بنک اکاﺅنٹس وغیرہ کی تفصیلات پوچھتا ہے اور اس کی وجہ عموماً یہ بتاتی جاتی ہے کہ بینک کو یہ تفصیلات اکاؤنٹ کی ویریفیکیشن یا بنک اکاﺅنٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
 
جیسے ہی آپ یہ تفصیلات شیئر کرتے ہیں تو کال کرنے والا فوراً انٹرنیٹ بنکنگ آن کرواتا ہے اور پھر تھوڑی مزید تفصیلات اور پاس ورڈ حاصل کر کے اکاؤنٹ سے رقم غائب ہو جاتی ہے۔
 
پاکستان میں بڑھتے ہوے فائنینشل فراڈ کی کئی اقسام میں سے یہ ایک ہے جس کا شکار سادہ لوح شہریوں کے ساتھ ساتھ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی ہو چکے ہیں۔
 
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے مطابق اس طرح کے مالیاتی فراڈ کی پانچ مختلف اقسام ہیں جن میں اے ٹی ایم فراڈ ، بنک اکاﺅنٹ فراڈ، جعلی کالز کے ذریعے ریپ، قتل وغیرہ جیسے سنگین جرائمز میں ملوث کرنے کا خوف دلا کر رقم ہتھیانا، کسی غیر ملک میں بسنے والے رشتہ دار کا دوست بن کر فراڈ کرنا اور انعام وغیرہ کا لالچ دے کر رقم بٹورنا۔
 
انجان کالرز کا یہ طریقہ واردات اس طریقے سے ترتیب دیا گیا ہوتا ہے کہ آپ کو سوچنے، سمجھنے یا اس عزیز کے گھر فون کر کے پتا تک کرنے کی مہلت نہیں دی جاتی اور اس فراڈ کے ذریعے کچھ ہی دیر میں اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے۔
 
یہ جرائم کس طرح ہوتے ہیں اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایف آئی اے اہلکاروں کے بقول یہ منظم گروہ فیصل آباد، حافظ آباد، سرگودھا اور لاہور ڈویژن سے زیادہ تر آپریٹ کرتے ہیں جب کہ پورے ملک میں یہ ہر سال ہزاروں سادہ لوح شہریوں کے علاوہ پڑھے لکھے طبقے کے افراد سے بھی کروڑوں روپے فراڈ کے ذریعے لوٹتے ہیں۔
 
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایسے کیسوں کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔
 
ملزمان کے پاس شہریوں کی حساس معلومات کا ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟
 
image
 
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سرفراز چوہدری گذشتہ کئی سالوں سے سائبر کرائمز کے کیسوں کو ڈیل کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے آن لائن ہراسانی، سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کو ہیک کرنا یا ان پر قابل اعتراض مواد نشر یا شائع کرنے جیسے کیس زیادہ رپورٹ ہوتے تھے لیکن حالیہ چند برسوں میں فانینشل فراڈ کی تعداد سائبر کرائمز ونگ میں رپورٹ ہونے والے کیسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
 
محمد سرفراز چوہدری کے مطابق ایسے تمام جرائمز کی جڑ جعلی سمیں اور جعلی اکاﺅنٹس ہیں جنھیں منظم گروہ بڑی چالاکی سے شہریوں کا ڈیٹا لے کر ایکٹیویٹ کرتے ہیں۔
 
ایف آئی اے کے سینیئر افسر کے مطابق ملزمان بڑے منظم طریقے سے اس جرم کو انجام دیتے ہیں اور اس کام کے لیے شہریوں کا نجی ڈیٹا بنکوں، ٹیلی کام کمپنیوں، ری ٹیل کی دکانوں، نادرا اور دیگر ذرائع سے وہاں کے عملے کی ملی بھگت سے حاصل کرتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، یعنی ڈیٹا خریدا جاتا ہے۔
 
سرفراز چوہدری کے مطابق انھوں نے کئی ایسے کیسوں میں بنک اور ٹیلی کام کمپنیوں کے عملے کے لوگوں کو گرفتار بھی کیا جو شہریوں کا ڈیٹا ایسے جرائم پیشہ گروہوں کو فروخت کرنے میں ملوث تھے۔
 
دوسری طرف ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ فیصل آباد میں تعینات ایک اور تفتیشی افسر کے مطابق ’بنک سٹیٹمنٹ، کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر)، لوکیشن، شناختی کارڈ (فوٹو کاپی)، ٹریول ہسٹری، جعلی سمیں وغیرہ سب بکتا ہے بس آپ کے پاس پیسے ہونے چاہیں۔‘
 
ان کے مطابق ملزموں سے دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا کہ اب وہ ایسی ایپس کا سہارا لیتے ہیں جن کی مدد سے شہریوں کا خفیہ ڈیٹا، شناختی کارڈ نمبر، گھر کا ایڈریس تک باآسانی مل جاتے ہیں۔
 
طریقہ واردات
تفتیشی افسر کے مطابق ایسے جرائم کے لیے فراڈ گینگ کے ممبران رینڈم لوگوں کے نمبروں پر کالیں کرتے ہیں اور اس دوران سمارٹ فون کے بجائے سادہ فون استعمال کیا جاتا ہے اور ایک گینگ ایک ہی وقت میں مختلف شہروں سے آپریٹ کرتا ہے۔
 
تفتیشی افسر کے مطابق فراڈ میں ملوث لوگ روزانہ سینکڑوں کالیں کرتے ہیں اور لوگوں کو جھانسہ دے کر لوٹنے میں کامیابی کی ان کی شرح 5 سے 10فی صد ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو ریپ وغیرہ جیسے جرائمز کا بتا کر ڈراتے ہیں اور پھر ان سے بھی پیسے بٹورتے ہیں۔
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ گینگ باقاعدہ شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور اس دوران بچوں کے رونے اور پولیس وائرلیس کی ریکارڈڈ آوازیں بھی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں تاکہ متاثرہ شخص جھانسے میں آ جائے۔
 
تفتیشی افسر کے مطابق شہریوں کو ڈرا دھمکاکر لوٹنے کا ریٹ 50 ہزار سے شروع ہوتا ہے اور اگر متاثرہ پارٹی کی مالی حیثیت پتلی ہو تو یہ ریٹ کم ہوتے ہوتے 10سے 15ہزار تک بھی ہو جاتا ہے۔
 
’زیادہ تر یہ لوگ پولیس والوں کا روپ دھار کر ہی فون کرتے ہیں اور سادہ لوح لوگ ان کے ڈراؤے میں آ جاتے ہیں۔‘
 
مگر یہ فراڈ گینگ کیسے آسانی سے سالہا سال سے اتنا بڑا فراڈ کر رہے ہیں اور قانون کی گرفت سے باہر ہیں، اس سوال کے جواب ایف آئی اے سائبر کرائم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کا ادارہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور ایسے گینگ کو کھلی چھوٹ ہے بلکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑتے ہیں۔
 
سرفراز چوہدری کے بقول سال 2022 میں بھی سینکڑوں ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے سمیں اور نقدی بھی برآمد کی گئی اور بہت سے لوگوں کو سزائیں بھی دلوائی گئیں۔
 
سائبر سرکل ملتان اور فیصل آباد کے مطابق گذشتہ سال اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث 500 سے زیادہ ملزمان گرفتار ہوئے۔
 
سائبر کرائمز ونگ لاہور کے ایک تفتیشی افسر کے مطابق ان لوگوں کے جھانسے میں آ کر ماضی میں بہت سے سینیئر سرکاری عہدیداران بھی اپنی کمائی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اُن کے بقول 2018میں اے ٹی ایم اور بنک اکاﺅنٹ کی ویریفیکیشن فراڈ کے صرف ایک کیس میں ملزمان ایک خاتون کے اکاﺅنٹ سے 3 کروڑ کی خطیر رقم حاصل کر لی تھی تاہم بعدازاں چند ملزمان پکڑے گئے تھے۔
 
اس نوعیت کے فراڈ سے بچا کیسے جائے اور حکام اس کے سدباب کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے چوہدری سرفراز کہتے ہیں کہ شہریوں کو محتاظ اور چوکنا ہونا ہو گا اور کبھی بھی فون پر کسی کو اپنی ذاتی معلومات کسی صورت شیئر نہ کریں۔ سرفراز چوہدری کے مطابق کوئی بھی بینک یا ٹیلی کام کمپنی کبھی بھی فون کر کے آپ کے اے ٹی ایم کارڈ، شناختی کارڈ اور بنک کی تفصیلات نہیں پوچھتے، اور نہ ہی وہ کبھی یو اے این نمبر سے کال کرتے ہیں، ایسی کوئی بھی کال ہمیشہ جعلی ہو گی اور جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے ہی ہو گی۔
 
ایف آئی اے کے افسر کے مطابق جرائم پیشہ گروہ سافٹ ویئرز کی مدد سے اس طرح کال کر سکتے ہیں جس سے شہریوں کو لگتا ہے کہ جیسے وہ کال کسی ٹیلی کام کمپنی کے یو اے این نمبر سے ہی آ رہی ہو۔ سرفراز چوہدری کے مطابق سافٹ وئیرز کی مدد سے 15 تک کی جعلی کال ملائی جاسکتی ہے اور یہ گینگ اس طرح کے کام کرتے بھی ہیں۔
 
سرفراز چوہدری کے مطابق جعلی سموں کی بندش اور جرائم پیشہ لوگوں کی معاونت کرنے والی ایپس فوری طور پر بند ہونی چاہیں تب جاکر اس جرم پہ قابو پایا جا سکے گا۔
 
انھوں نے کہا کوئی بھی کال فون پر آنے کی صورت میں صارف کو چاہیے کہ وہ خود 15 یا مقامی پولیس سے رابطہ کرے اور انھیں موصول ہونے والی کال اور تفصیلات سے آگاہ کرے۔
 
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارتی یعنی پی ٹی اے کی ترجمان ملاہت عبید نے بی بی سی کو بتایا کہ جعلی سموں کی روک تھام کے لیے اتھارٹی نے پچھلے سال دسمبر سے اپنے سسٹم میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں اور ایک مربوط نظام متعارف کروایا ہے۔
 
’دسمبر سے ہم نے موبائل سموں کی ویریفیکیشن کے لیے ملٹی فنگر بائیومیٹرک ویریفیکیشن سسٹم متعارف کروا دیا ہے تاکہ جعلی سمز کے ذریعے ہونے والے فراڈ سے شہریوں کو بچایا جا سکے۔‘
 
ترجمان کے مطابق اس نئے سسٹم سے انگلیوں کے جعلی نشانات سے سم کارڈ حاصل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سموں کی رجسٹریشن کی پوری ذمہ داری پی ٹی اے کی ہی ہے اور وہ جعلی سموں کی رجسٹریشن کی روک تھام میں اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔
 
ایک سوال کے جواب میں پی ٹی اے کی ترجمان ملاہت عبید نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر چلنے والی مختلف ایپس جس سے شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے اس کی ذمہ داری مختلف سٹیک ہولڈر پہ عائد ہوتی ہے جس میں ایف آئی اے، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان یعنی ایس ای سی پی، سٹیٹ بنک آف پاکستان وغیرہ شامل ہیں کیونکہ ایپس کوئی کمپنی چلا رہی ہوتی ہے جس کے متعلق پی ٹی اے کو ایس ای سی پی بتائے گا تو ہم کاروائی کریں گے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: