|
|
بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ماں باپ کو اس کے جہیز اور
شادی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے اور باپ اپنی محنت دوگنی کر دیتا ہے جبکہ ماں
ایک ایک چیز کو بیٹی کے جہیز کے نام پر سنبھال کر رکھنا شروع کردیتی ہے- |
|
صرف بات اگر شادی کے دن کی بھی کی جائے تو آنکھیں کھول
دینے والی ادائیگیاں سامنے آتی ہیں جو ان فرسودہ روایات کا حصہ ہیں جو جانے
کب سے ہمارے معاشرے میں چلی آرہی ہیں- |
|
صرف شادی کے دنوں میں ہی لڑکے والوں کو لاکھوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں
ان میں دس لاکھ کا جہیز٬ پانچ لاکھ کا کھانا اور گھڑی پہنائی.۔۔۔۔ انگوٹھی
پہنائی. مکلاوے کے دن کا کھانا.۔۔۔ ولیمے کے دن کا ناشتہ. پھر بیٹی کو رخصت
کرتے وقت اس کے سب سسرالیوں کے لئے کپڑے بھیجنا اور ساس کے لیے سونے کا سیٹ.
برات کو کھانا کھلانے کے بعد ان کے جاتے ہوئے بھی ساتھ میں کھانا بھیجنا۔
اور نہ جانے کیا کیا شامل ہوتا ہے جسے پورا کرنے میں لڑکی کے ماں باپ وقت
سے پہلے ہی کچھ زیادہ بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں- |
|
یہ سب دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی بیٹی کسی کے جگر کا ٹکڑا
نہیں بلکہ ماں باپ کے لیے کوئی سزا ہے- |
|
|
|
بھاری بھرکم اخراجات کا سلسلہ تو تب سے ہی شروع ہو جاتا
ہے جب کسی بچی کی منگنی کی جاتی ہے، کبھی نند آرہی ہے، کبھی جیٹھانی آرہی
ہے، کبھی چاچی ساس آرہی ہے، کبھی ممانی ساس آرہی ہے- ایسے میں بیٹی کی ماں
چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سجائے سب کو اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا پیش کرتی ہے-
اور سب کو اچھے طریقے سے خوش آمدید کرتی نظر آتی ہے کہ کہیں کسی بات سے کسی
خالہ یا ممانی ساس کے ماتھے پر شکن نہ پیدا ہوجائے- |
|
جبکہ باپ سے الگ یہ سوال ہورہا ہوتا ہے کہ بتائیں جی
کتنے باراتی لائیں اور ساتھ ہی دانستہ طور پر سنا دیا جاتا ہے 150 سے 200
تو ہمارے اپنے قریبی رشتے دار ہی ہیں- |
|
اور اس سب کو پورا کرنے میں باپ کا ایک ایک بال قرضے میں
ڈوبنا شروع ہو جاتا ہے اور اس قرض کو وہ بیٹی کو گھر سے رخصت کرنے کے بعد
بھی اتارتے اتارتے خود قبر میں اتر جاتا ہے۔ |
|
دوسری طرف بیٹی بھی خود کو قصوروار ٹھہراتی نظر آتی ہے
کہ اس کی وجہ سے اس کے باپ کا بال بال قرضے میں ڈوب گیا- |
|
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لاکھوں کے آخراجات بھی لڑکی کا
گھر بسنے کی ضمانت نہیں ہوتے اور ذرا سی بات پر اسے میکے کا راستہ دکھا دیا
جاتا ہے- اور ساتھ ہی اسے کسی نہ کسی کمی کا بھی طعنہ دے دیا جاتا ہے- |
|
خدارا لڑکی کا رشتہ مانگتے وقت ہم کب سوچیں گے کہ ہمارے
گھروں میں بھی بیٹیاں ہیں- ہم کب یہ کہنا سیکھیں گے ہمیں کچھ نہیں صرف بیٹی
چاہیے؟ کب ہم اپنے گھروں سے ان فضول رسموں کو ختم کریں گے جو گھر بیٹھے
بیٹھے لڑکیوں کے سر میں چاندی اترنے کا سبب بن رہی ہیں؟ |
|
|
|
بہتر ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم ان فرسودہ
رسموں کے خاتمے کی فکر کریں تاکہ ہر باپ اپنی بیٹی کو آسانی کے ساتھ رخصت
کر سکے۔ اس کی ذمہ داری صرف لڑکے والوں پر عائد نہیں ہوتی بلکہ لڑکی والوں
کو بھی ان رسومات کے خاتمے کے سلسلے میں ساتھ دینا ہوگا- انہیں بھی چاہیے
کہ ہر بات کو اپنی عزت اور رشتے داروں کی فکر کا مسئلہ نہ بنائیں اور بیٹی
کو دعاؤں اور اچھی تربیت کے ساتھ رخصت کریں اور ہر ماں باپ کے لیے روشن
مثال بنیں- |
|
ہمارے معاشرے میں کئی ایسی روشن مثالیں
موجود ہیں جن میں دیکھا گیا ہے کہ بہت سادگی سے شادی کردی گئی- یہاں تک کہ
ولیمے پر بھی سادگی کا مظاہرہ کیا گیا اور اضافی رقم کو مستحقین میں تقسیم
کر دیا گیا- اور یہی حقیقت ہے کیونکہ اسلام نے نکاح یا شادی مشکل نہیں
بنائے بلکہ وہاں تو ملتا ہی سادگی کا درس ہے- شادی کو ہم نے خود مشکل بنایا
ہے غیر ضروری رسموں اور خرچوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور اس میں قصور صرف ایک
طرف کا نہیں بلکہ ہم سب برابر کے شریک ہیں- |