ملکی حالات کا اندازہ عوامی حالت سے پتا چلتا ہے اور عوام
کی حالت تب بہتر ہوتی ہے جب ادارے اپنا پنا کام درست طریقے سے کررہے ہوں اس
وقت آپ کسی بھی ادارے کی حالت دیکھ لیں لوٹ مار کا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام
نہیں لے رہا جن کی وجہ سے عوام پریشان اور ملک بدحال ہوچکا ہے اگر اداروں
میں بیٹھے ہوائے افراد سفارش اور پیسے کے زریعے سیٹوں پر نہ آئے ہوتے تو آج
پاکستان اور عوام دونوں خوشحال ہوتے باقی صوبوں کو رہنے دیں جہاں ہے ہی
کرپشن آپ پنجاب کے 52محکموں کو اٹھا کرانکی کارکردگی کو دیکھیں اور پھر ان
میں موجود افراد کو دیکھیں صورتحال کھل کر سامنے آجائے گی بلوچستان اور
سندھ کے محکموں کے افسران کی وہ ویڈیوں تو یاد ہو گی جوپانی والی ٹینکی اور
گھر کے تہہ خانوں سے کروڑوں روپے لوٹ مار کے ملنے کی تھی انہی لٹیروں کی
وجہ سے آج پاکستان کی عوام غربت کی دلدل میں ڈوب رہی ہے آج اگر ملک میں
کرپشن کا دور دورہ ہے تو وہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کی وجہ سے ہی
ہے حالانکہ ہمارا ہر ادارہ اپنے طور پر خود مختار بھی ہے اور آزاد بھی لیکن
یہاں پر الٹی گنگا بہہ رہی ہے جو ادارہ بھی نظر آتا ہے وہ خسارے میں
پاکستان ریلوے کا خسارہ آج تک پورا نہیں ہورہا بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ
بڑھتا ہی جارہا ہے اور اگر آپ ریلوے افسران کے ٹھاٹھ دیکھیں تو لگتا ہی
نہیں کہ ہم ایک غریب ملک میں رہ رہے ہیں اسکے برعکس ایک ویگن چلاکر محنت
مزدوری کرنے والوں نے اپنی ٹرانسپورٹ کمپنیاں بنا لی ایک ایک بس سے کام
شروع کرنے والوں کے پاس آج درجنوں بسیں ہیں اور ایک ٹرک سے سامان لوڈ کرنے
والے بھی آج گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالک ہیں خیر میں بات کررہا تھاپنجاب
کے محکموں کی جن کا حال بھی سندھ کے محکموں سے اچھا نہیں ہے یہاں پر کچھ
محکمے عوام کی نظروں میں آئے بغیر اندر ہی اندر سے کام ڈال رہے ہوتے ہیں
انہی میں ایک محکمہ مائنز اینڈ منرل کا بھی ہے جو بڑی بڑی کانوں کے ٹھیکوں
سے لیکر ریت کے زروں تک کو نیلام کرتے ہیں اور اگر آپ صرف انکی ریت والی
کمائی کا ہی حساب کتاب کرنا شروع کردیں تو وہ بھی کروڑوں نہیں بلکہ اربوں
روپے بنتا ہے باقی کانوں کے ٹھیکے تو سوچیں بھی نہ کہ ان میں کیا کیا ہوتا
ہوگا اور اب وہ ٹھیکے تو خیر سے نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے ختم کردیے
محسن نقوی اداروں کو پروان چڑھاکراپنے پاؤں پر کھڑا کرنا جاناتا ہے امید ہے
کہ وہ اپنے مختصر وقت میں اس محکمہ کی حالت زار تو ٹھیک کریں گے ہی ساتھ
ساتھ پنجاب کے دوسرے محکموں کا قبلہ بھی درست کرکے جائیں گے میں صرف ایک
محکمہ کی کارکردگی کا ذکر کرونگا باقیوں کا اندازہ آپ خود لگالیں محکمہ
مائنز اینڈ منرل عوام کی نظروں سے اوجھل محکمہ ہے جہاں صرف ان افراد کا آنا
جانا ہوتا ہے جو ریت ،نمک اور کانوں کے کام سے منسلک ہیں اس لیے باقی افراد
ان سے واقف ہیں اور نہ ہی انکی کارکردگی سے ایک چھوٹی سی دوکان سے لیکر بڑے
بڑے محلات کی تعمیر میں ریت ہر صورت استعمال ہوتی ہے جسکے ٹھیکے یہی محکمہ
دیتا ہے اور مزے کے بات یہ ہے کہ 2010تک اس محکمے کے ریت کا کوئی شیڈولڈ
ریٹ ہی مقرر نہیں کیا ہوا تھا انکی مرضی ہوتی تھی کہ کس کو کتنا نوازنا ہے
اس کے مطابق ٹھیکے جاری کردیے جاتے تھے اور پھر ٹھیکیدار کی مرضی ہوتی تھی
کہ وہ کتنا لوٹنا چاہتا ہے اس صورتحال کی خبر جب ہماری عدلیہ تک پہنچی تو
2009میں عدالت نے سوموٹو لیا اور ڈی سی ملتان کو انکوائری کرنے کا حکم دیا
جس میں محکمہ کے بھی افسران آئے اور بتایاکہ 1985 میں ریت کی قیمت مقرر
کرنے کے لیے میٹنگ ہونا تھی جو آج تک نہ ہوسکی جسکی وجہ سے ریت کا شیڈولڈ
ریٹ بھی مقرر نہ کیا جاسکا اوراب تک محکمہ مائنز اینڈ منرل میں بغیر کسی
شیڈولڈریٹ کے ٹھیکے دیے جارہے ہے اب یہ ٹھیکیدار کی مرضی ہے کہ وہ ایک
ٹرالی کے50ہزار وصول کرے یا 5ہزار رپورٹ پر عدالت نے شیڈولڈ ریٹ مقرر کرنے
کا حکم دیدیا پہلے ریت کا ٹھیکہ سیکشن195کے تحت دیا جاتا تھا اسکے بعد
محکمہ نے پنجاب اسمبلی سے سیکشن 195Aمنظور کروائی یوں محکمہ نے 2010میں
سوموٹو پر عمل کروالیاجسکے بعدپنجاب کے 36اضلاع میں ریت کے شیڈولڈ ریٹ مقرر
ہوگئے جسکے مطابق مالکانہ سیکشن 208کے تحت 2روپے سے لیکر ساڑھے تین روپے
مقر کردیاجن میں ذاتی زمین والے کو ڈیڑھ روپے ادا کرنا تھے پانچ سا 2015میں
محکمہ نے ریت کی قیمت کا یہ شیڈول پھر ترتیب دیا اس محکمہ میں ٹھیکیدار بھی
عرصہ دراز سے چلے آرہے ہیں محکمہ نے 2017میں ڈی سی کو ریت کی قیمتوں کے
حوالہ سے ایک چھٹی لکھی جسکے تحت ڈی سی نے مختلف مقامات پر ریت کی قیمتوں
میں مختلف مد کی مد میں اپنی مرضی سے ریت فی مربع فٹ کی قیمت تین روپے سے
بڑھا کر 8روپے سے تقریبا26فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دیا جو اخراجات کی مد میں
وصول کیے جانے لگے اور اس اوپر کی رقم کا کسی سرکاری کھاتے میں اندراج نہیں
ہوتا بلکہ یہ رقم ٹھیکیدار محکمہ کی ملی بھگت سے خود ہی وصول کرنے لگا اگر
پنجاب بھر کے اضلاع سے ریت کی کاروبار میں یہ اوپر کی رقم کا تخمینہ لگایا
جائے تو اربوں روپے بنتے ہیں جو ٹھیکیدار اور محکمہ کے افسران ملی بھگت سے
ہضم کررہے ہیں لاہور ،ملتان اور ساہیوال کے ٹھیکیدار تو بہت طاقتور ہیں آپ
بہاولپور کے ٹھیکیدار کا اندازہ لگالیں بہاولپور میں ساڑھے 16 کلومیٹرکا
علاقہ صرف ایک ہی ٹھیکیدار کے پاس ہے جو اپنی مرضی سے ریت کی قیمت مقرر
کرتا ہے جو اسکی نہیں مانتا اسے ریت اٹھانے کے لیے 16کلومیٹر دور بھجوا
دیتا ہے جبکہ سیکشن 197کے تحت محکمہ 500ایکڑ سے زیادہ جگہ ٹھیکے پر نہیں دے
سکتااور زون میں ایک سے دو ہزار ایکڑ سے زائد نہیں لے سکتا بہاولپور میں
ایک ہی شخص کو 16کلومیٹر سے زائد کا علاقہ دے رکھا ہے جو دونوں ہاتھوں سے
لوٹ مار میں مصروف ہے سرکاری ریٹ کے علاوہ اپنی مرضی کے ریٹ سے ریت فروخت
کررہا ہے فرض کریں ایک شخص کو ریت بہاولپور شہر میں چاہیے اور ٹھیکیدار
اسکو ریت اٹھانے کے لیے 16کلومیٹر دور بھجوا رہا ہے تو اس سے ٹریکٹر ٹرالی
کا خرچہ بھی بڑھ جائے گا اور مزدوری بھی زیادہ ہو گی وزیر اعلی پنجاب اگر
اس وقت صرف لاہور ،ساہیوال ،ملتان اور بہاولپور ڈویژن کے اضلاع میں ہونے
والے ریت کے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کرلیں تو انہیں اندازہ ہو جائیگا کہ صرف
ریت کی مد میں ہی کیسے اربوں روپے کی لوٹ مار کی جارہی اگرحکومت ریت کی
کرپشن پر کابو پالے تو پنجاب کے ہسپتالوں میں ہر شخص کا مفت علاج بھی ہوسکے
گا اوربچوں کو تعلیم کی سہولت میں میسر ہو گی۔
|