حتمی انتخاب فقط پاکستان

کہانی ہے اک ایسی بچی کی جس نے اپنا گھر اور خاندان کے قربان ہونے کے بعد بھی پاکستان کا انتخاب کیا۔

اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے، جہاں سے پھول ٹوٹا تھا وہاں سے کلی سی اک نمایاں ہو رہی ہے۔۔

درد کی ایک لہر اس کے پورے سر میں بجلی کی طرح کبھی ایک جگہ چمکتی تو کبھی دوسری جگہ۔ اس نے اپنے وجود کو پتھر کی مانند سخت تر پایا۔ وقت اور درد نے اسے حالات سے یکسر لاتعلق بنا دیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند اور پلکیں ایک دوسرے میں پیوست تھیں۔ ماتھے پر بندیا لگائے ایک عورت بہت توجہ سے اسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک آنکھوں میں ارتعاش سا پیدا ہوا۔ ڈیڑھ ہفتے کی مسلسل دیکھ بال کے بعد سر کے زخم اب بھرنے لگے تھے۔ آٹھ نو سال کا یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ اسے لاشوں کے ڈھیر تلے دبا ہوا ملا تھا۔ جانے یہ کومل سی جان کب تلک اس لاشوں کے ڈھیر تلے دبی رہی کسی کو معلوم تک نہ تھا۔ لاشوں کو اٹھاتے دوران شور مچا اک ننھی سی جان کی چند ساعتیں شاید باقی ہیں۔ لیکن بدبو کے مارے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھا۔ اچانک روپا دیوی نے کچھ سوچتے ہوئے ناک پر ساڑھی کے ایک پلو کا گولہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے کی ٹھانی۔ چند قدم آگے بڑھ کر اس نے اس لاغر جسم کو اپنے کاندھے پر اٹھایا اور لوگوں کی بھیڑ سے آگے کو نکل گئی۔ روپا دیوی اس بستی میں اکیلی رہتی تھی اولاد نا ہونے کا غم اسے ہمیشہ ستاتا تھا اور اس کا شوہر زیادہ تر باہر رہتا تھا۔ بچی کی خوب دیکھ ریکھ کی اور اسی دوران اس کا نام شریا رکھ دیا۔ لیکن بچی تھی کہ صحتیابی کے بعد بھی کچھ بولنے کی ہمت نہ کرتی تھی۔" آج شاید آخری روزہ ہو" بی اماں ننھی فاطمہ کو بتلا رہی تھیں۔ اباجان اور تایا کو یہی لگتا تھا کہ فیروزپور بھی پاکستان میں شامل ہو جائے گا پر قسمت کہاں کسی کے خیال کے مطابق چلتی ہے ۔ وہی ہوا جسکا ڈر تھا، پھر پاکستان کی طرف ہجرت شروع ہوئی ننھی فاطمہ نے اپنے قریب بہت سی لاشوں کا انبار دیکھا، آنکھوں میں فقط آنسو تھے اور دل تھا کہ اس حادثے کو قبول کرنے پر کتراتا تھا۔ اچانک روپا کے گھر ریڈ کراس والے آئے۔ خاندان کے متعلق دریافت کیا۔ روپا نے سب کچھ بتایا۔ اچانک انھوں نے شریا کو دیکھا ۔ روپا جھجھک کر بولی"ہمری بٹیا۔۔مگر گونگی ہے "وہ شریا کے پاس گئے کافی دیر اسے دیکھتے رہے۔ وہ جو سبز لبادہ اوڑھے بیٹھی تھی اس نے انھیں تشویش میں ڈالا۔ وہ اٹھ کر چل دیے یکدم وہ ننھی بولی " شریا نہیں فاطمہ ہوں میں۔ مجھے پاکستان جانا ہے "رے پگلی! کدھر رہے گی تیرا تو کائی بھی نہیں ہے" روپا حیرت سے بولی۔ "ابا نے کہا تھا ہم پاکستان جائیں گے " ریڈ کراس والوں نے اس کا نام اک کاغذ پر لکھا اور چل دیے۔
 

Zainab Nisar Bhatti
About the Author: Zainab Nisar Bhatti Read More Articles by Zainab Nisar Bhatti: 25 Articles with 13466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.