میں بیٹی واپس گھر بٹھا لوں گا مجھے کوئی مسئلہ نہیں، والدین کے 4 رویے جو بیٹیوں کے گھر برباد کر رہے ہیں

image
 
بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں یا بیٹیاں بابل کے انگنا کی وہ چہچہاتی چڑیاں ہوتی ہیں جو صرف کچھ عرصے کے لیے اس انگنے کی مہمان ہوتی ہیں۔ بیٹا سسرال کو اپنا گھر سمجھنا اور واپسی کا سوچنا بھی مت یا ڈولی میں بیٹھ کر جا رہی ہوں یہاں سے اب تمھارا جنازہ ہی نکلنا چاہیے-
 
ماضی میں یہ جملے تو اکثر سب نے ہی سنے ہوں گے مگر اس کے بعد وقت بدلا اور اب کہا جانے لگا کہ طلاق یافتہ بیٹی مری ہوئی بیٹی سے بہتر ہے، شادی زندگی کا ایک واقعہ ہے زندگی نہیں ، میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں ، کسی دوسرے کی غلامی کرنے سے بہتر ہے کہ میری بیٹی اپنی زندگی آزادی سے گزارے-
 
اس کل اور آج کے بیچ میں جہاں والدین کی سوچ میں تبدیلی آئی وہیں پر اس کے اثرات لڑکیوں کی سوچ میں بھی آنے لگے- نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے کا خانداںی نظام کمزوری کا شکار ہو گیا اور ملک بھر میں طلاق اور خلع کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا-
 
بیٹی کی شادی ہی صرف اہم نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں والدین کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وقت پر بیٹی کے ہاتھ پیلے کر کے اس کو رخصت کر دیں۔ اس کے لیے وہ جہیز کے سامان کو جمع کرتے ہیں۔
 
image
 
اس کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں تاکہ اچھی نوکری کر سکے اور آزادانہ کمائی کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی صورت شکل کا بھی خیال کرتے ہیں باقاعدگی سے پارلر بھیجتے ہیں تاکہ وہ رشتے کے لیے آنے والوں کو پسند آسکے۔ اور پھر اس طرح ان تمام تیاریوں کے ساتھ بلاآخر بیٹی پیا گھر سدھار جاتی ہے-
 
مگر بیٹی کی رخصتی کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کہ والدین کی ذمہ داری کا خاتمہ ہو گیا ہے- کیونکہ بیٹی کی صرف شادی ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کا اس گھر میں بسنا بھی اہمیت کا حامل ہے جو کہ والدین کی اچھی تربیت اور مشوروں سے ہی ممکن ہے-
 
بیٹی کو گھر میں بسانا
بیٹی کو اپنے گھر میں بسانے کے لیے کچھ ایسے اقدامات جو والدین کو لازمی کرنے چاہیے ہیں-
 
1: بیٹی کے سسرال کے معاملات میں دخل اندازی
شادی کے بعد سمجھ دار والدین بیٹی کو اس کے سسرال میں ایڈجسٹ ہونے کا وقت اور موقع فراہم کرتے ہیں- چھوٹی چھوٹی باتوں پر دخل اندازی کرنے کے بجائے اپنی تربیت پر بھروسہ کرتے ہیں اور لڑکی کو سسرال کے معاملات خود ہی سنبھالنے کا موقع دیتے ہیں-
 
2: اپنی مرضی چلانا
کچھ والدین کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی بیٹی بیچ تو نہیں دی ہے کہ میری بیٹی ان کی مرضی سے آنا جانا کرے۔ لیکن ایسے والدین کو اگر اپنی ہی مرضی چلانی تھی تو پھر انہوں نے بیٹی کی شادی کیوں کی تھی-
 
اب آپ کی بیٹی کسی اور کے گھر کی عزت ہے اس وجہ سے اس کے گھر کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے بجائٰے اپنی بیٹی کو ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا سبق دیں- کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے کا صبر میٹھے پھل کے ساتھ آپ کی بیٹی کی زندگی میں آجائے گا-
 
3: میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں ہے
بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں بوجھ کس طرح ہو سکتی ہیں لیکن بچیاں نادان بھی ہوتی ہیں- اور ایسی نادان بچیوں کے اگر والدین بھی نادان ہوں تو نتیجہ کے طور پر بچیاں یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ ان کے پاس والدیں کے گھر واپسی کا دروازہ کھلا ہے۔ اس وجہ سے وہ سسرال میں دل لگانے کی کوشش ہی نہیں کرتی ہیں-
 
image
 
4: شوہر سے دبنے کی ضرورت نہیں
ماضی کی نسبت آج کے زمانے میں شوہر کی عزت کو اسکی کمائی سے جوڑ دیا گيا ہے- جبکہ اسلام میں یہ کہیں پر بھی نہیں لکھا کہ زیادہ کمانے والا شوہر مجازی خدا ہوگا جب کہ بیوی سے کم کمانے والے شوہر کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے- یہ وہ سوچ ہے جو کہ آپ کی بیٹی کو برتری کے احساس میں مبتلا کر دیتی ہے جس سے اس کی ازدواجی زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے-
 
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی ہیں مگر اپنا گھر (سسرال ) چھوڑ کر میکے آنے والی یہ لڑکیاں والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین رخصت ضرور کر دیتی ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: