ماہِ رمضان کا آغاز ہوتا ہے تو بہت سے فلاحی اداروں کی
جانب سے قلمی تعاون کی اپیلیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہو
جاتا ہے کہ کس ادارے کی اپیل قارئین تک پہنچائی جائے۔ ہمارے ہاں ایک ریکارڈ
تعداد میں فلاحی ادارے موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 25 سے
30 ہزار کے قریب این جی اوز موجود ہیں ۔ لوگ کس کس کو مستند گردانیں، یہ
ایک بڑا اور توجہ طلب سوال ہے۔ قلمکاروں کیلئے بھی یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل
ہو جاتا ہے کہ وہ کس کس ادارے کی قلمی سرپرستی کریں، اور اپنے قارئین کو
بااعتماد فلاحی اداروں تک راہنمائی دے سکیں ۔ ایسے میں قلمکاروں کی نظر میں
موجود ادارے، جنہیں انہوں نے قریب سے دیکھ رکھا ہوتا ہے، ان کا تذکرہ کرنے
میں آسانی رہتی ہے۔ میں جن قابلِ قدر اداروں کو قریب سے جانتا ہوں، غزالی
ایجوکیشن ٹرسٹ، ڈور آف اوئیرنیس، محمد علی جناح میڈیکل کمپلیکس ، غیث
ویلفئیر ٹرسٹ ان میں سے چند ایسے ادارے ہیں جن پر عطیات دینے کے معاملے میں
آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
غیث ویلفئیر ٹرسٹ کا جھگی تعلیمی پراجیکٹ خانہ بدوشوں کے بچوں کیلئے ایک
حوصلہ افزاء پراجیکٹ ہے جو جھگیوں میں رہنے والے بچوں کو دینی و دنیاوی
تعلیم سے آشکار کر رہا ہے۔ میں نے بارہا اس پراجیکٹ کا دورہ کیا اور بچوں
کا ویژن بہت ہائی پایا ۔ یہ بچے پولیس میں جانا چاہتے ہیں، یا ڈاکٹر ،
انجینئر اور فوجی بننا چاہتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے خواب شرمندہ
تعبیر ہوں گے تو یہ معاشرے کو اچھی نسل دے سکیں گے۔ حالات نے جنہیں لوگوں
کے گھروں میں کام کرنے اور کچرا اٹھانے پر لگا دیا ہے،اگر غیث ویلفئیر جیسے
ادارے اپنے قیام کے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں تو یہ بچے ’’بابو‘‘ بن ہمیں
دعائیں دیں گے۔
ـمجھے تو بس پڑھنا ہیـ‘‘ کا خوبصورت سلوگن لئے، ڈور آف اوئیرنیس بھی مذکورہ
طرز کے بچوں کو بہتری کے سفر کی جانب گامزن کئے ہوئے ہے ۔ جھگیوں میں رہنے
والے بچوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے ووکیشنل سنٹرز
کے ذریعے انہیں ہنرمند بنانے کیلئے بھی کوشاں ہے ۔
بانی پاکستان قائداعظم کے نام سے منسوب محمد علی جناح میڈیکل کمپلیکس میں
ماہانہ بنیادوں پر مستحق افراد میں راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ مستحقین کیلئے فری ڈائیلیسز بھی اس ادارے کی پہچان ہے ۔
عطیات میسر آتے رہیں تو محمد علی جناح میڈیکل کمپلیکس کے روحِ رواں بشیر
مہدی اس سلسلے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید وسیع کرنے کیلئے بھی پُرعزم
ہیں ۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں کم وسیلہ خاندانوں کے
بچوں کو گذشتہ 26 سال سے تعلیم دینے والا مستند فلاحی نیٹ ورک ہے ۔ ٹرسٹ کے
800 سے زائد سکول ۱یک لاکھ سے زائد بچوں کیلئے تعلیم کی راہ ہموار کئے ہوئے
ہے ۔ دیہی پاکستان کے 47 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت
کے ساتھ ساتھ نظرانداز خصوصی بچوں اور اقلیتوں کیلئے الگ الگ تعلیمی
پراجیکٹس بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کاوشوں میں شامل ہیں۔ گذشتہ ایک سال
کے دوران غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سکولوں میں پڑھنے والے یتیم اور مستحق
بچوں کی تعلیمی کفالت کی مد میں تقریباً سوا چار کروڑ روپے کے اخراجات
ہوئے…… سپیشل بچوں کی تعلیمی معاونت و کفالت پر 1 کروڑ 21 لاکھ روپے خرچ
کئے گئے ۔ یہ تمام امور مخیر حضرات کے عطیات سے ہی پورے ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’ہم بحیثیت قلمکار ، مستند فلاحی
اداروں کے ساتھ صرف قلمی تعاون ہی کر سکتے ہیں، باقی کام قارئین اور مخیر
حضرات کا ہے‘‘ ۔ اگر مخیر حضرات Law of Giving کا نظریہ اپنائیں اور اپنے
عطیات کی لسٹ میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، غیث ویلفئیر ٹرسٹ، محمد علی جناح
میڈیکل کمپلیکس اور ڈور آف اوئیرنیس جیسے اداروں کو بھی شامل کر لیں ، تو
وسائل سے محروم بے شمار لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی، کیونکہ ایسے
فلاحی اداروں کا وجود ہمارے معاشرے کیلئے کسی غنیمت سے کم نہیں ہے ۔
بدقسمتی کے ساتھ ہم بحیثیت معاشرہ اپنے فرائض سے غافل ہیں ۔ وقت کا تقاضہ
ہے کہ پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے معاشرے کے تمام طبقے اپنی اپنی
ذمہ داریاں محسوس کریں اور ایک ’’انسان دوست‘‘ معاشرے کی تشکیل کیلئے
جدوجہد کریں ۔ بلاشبہ یہ Law of Giving ہی ہے جو ہمارے سماج کی ترقی کا
ضامن ہے …… اگر ہم Law of Giving کا نظریہ اپنا لیں تو ہمارا معاشرہ بہت
خوبصورت ہو جائے گا۔
|