مغفرت کی شرائط( حصہ دوئم آخری حصہ )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں پچھلی تحریر میں ہم نے قران مجید فرقان حمید کی سورہ النساء کی آیت 64 کے ترجمہ اور تفسیر پر تذکرہ کیا تھا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت مبارکہ میں ہم انسانوں کو اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے تین شرائط مختص کردی ہیں جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ اگرکوئی گناہ سرزرد ہوجائے تو دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہونا دوسری شرط اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا اور تیسری شرط کہ سرکار علیہ وسلم کی شفاعت سے اللہ رب العزت ہماری مغفرت فرمادے ہم نےپچھلی تحریر میں اب تک پہلی شرط پر بات کی ہے آج کی تحریر میں ہم بقایا دو شرائط کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دوسری شرط یعنی اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا توبہ کرنا ہے اور آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا کہ اللہ رب العزت کو اپنے بندے کا سب سے زیادہ جو عمل پسند ہے وہ اپنے گناہوں سے نادم ہوکر صدق دل سے توبہ کرنا ہے یعنی اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں کے صرف گناہ معاف ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے پچھلے گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور اسے وہ مقام عطا کرتا ہے جس کا ہر ذی شعور اہل ایمان خواہش رکھتا ہے " توبہ و استغفار " کے عنوان پر لکھے گئے میرے کالم میں توبہ و استغفار کے بارے میں کافی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب ہم دربار خداوندی میں رب الکائنات کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعائے مغفرت کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالی کے حضور گریہ زاری کرکے آنسو بہاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے اللہ تبارک وتعالی کی دی ہوئی دوسری شرط بھی پوری کردی بقول شاعر
توبہ کے آنسوئوں نے جہنم بجھادیا
توبہ بڑی سپر ہے گناہگاروں کے لئے

بلکل اسی طرح قران مجید میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 122 میں ارشاد فرمایا ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان " بیشک اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں اور پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے " اس لئے اگر ہم توبہ بھی کریں اور اس توبہ میں ندامت کے ایک آنسو کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ بھی ہو تو رب الکائنات بیشک ہمیں بخش دے گا اور یہاں اللہ تبارک وتعالی کی دوسری شرط بھی پوری ہوجاتی ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جیسے پہلی شرط میں اللہ رب العت نے گناہ ہوجانے کے سبب دربار رسالت صلی اللہ علیہ والم پر حاضری دوسری شرط میں اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سرکار علیہ السلام کے وسیلہ سے دعا مانگنا تھا تو اب تیسری شرط کی باری آتی ہے کہ جس میں اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہمارے لئے پہنچ جائے جناب قران مجید کی سورہ النساء کی آیت 64 نے ہمیں جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے یعنی اس آیت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کوئی کتنا ہی گڑگڑائے آنسو بہائے توبہ و استغفار کرے لیکن غفلت میں نہ رہے کہ اللہ رب العزت اس کے گناہوں کو معاف کردے گا جب تک خدا کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مغفرت پر راضی ہوکر اس کی شفاعت اور دعائے مغفرت نہ فرمائیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آخرت میں بھی بغیر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے کوئی نہیں بخشا جائے گا یاد رکھیں جو لوگ آج اس بات سے منکر ہیں بروز قیامت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکارتے ہوئے یہاں وہاں بھاگ رہے ہوں گے چاہے کوئی نیکوکار ہو یا بدکار سبھی آپ علیہ وسلم کی طرف بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے اللہ تبارک وتعالی نے بار بار اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے دعا فرماتے رہیں اور ان کی شفاعت کرتے رہیں گویا آپ علیہ وسلم نے ہر وقت اور ہر لمحہ ہمارے لئے دعائے مغفرت کی یہاں تک کہ وقت وصال بھی آپ کے لبوں پر یہ ہی تھا کہ رب ہبلی امتی اے رب میرے امتیوں کو بخشدے اور وصال کے بعد بھی آپ علیہ وسلم اپنی قبر انور یعنی روزہ مبارک سے بھی اپنی کریموں اور رحمتوں سے اپنی امت کو آج بھی نوازتے آرہے ہیں اور قیامت تک نوازتے رہیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ ترجمعہ " اے مومنوں میری حیات اور میری وفات دونوں تمہارے لئے بہتر ہیں تمہارے اعمال میری قبر انور میں صبح وشام میرے سامنے پیش کئے جائیں گے اگر میں تمہارے اعمال کو اچھا پائوں گا تو میں خدا کی حمد بیان کروں گا اور اگر برا پائوں گا تو تمہارے لئے مغفرت کی دعا کروں گا " حضرت صاوی علیہ الرحمہ اس حدیث پر فرماتے ہیں کہ سرکار علیہ وسلم کا یہ قول صرف اہل ایمان والوں کے لئے ہے جو لوگ گمراہ بھٹکے ہوئے اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے منکر ہیں ان کے لیے نہیں ہے (صاوی ج 2 صفحہ 167 ) ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس تحریر کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر اہل ایمان مسلمان کو اپنی بخشش کے لئے تین شرائط دے دی ہیں گناہ ہونے پر دربار رسول پر حاضری اللہ رب العزت سے توبہ و استغفار کرنا اور حضور کی شفاعت پر ہماری بخشش ہونا لہذہ کوئی ذی شعور اہل ایمان مسلمان ان شرائط پر عمل کرکے مغفرت کی دعا طلب کرے تو اللہ تبارک وتعالی اپنی رحمت خاص سے اس کی مغفرت فرمادے گا کیوں کہ بروز محشر ہر طرف یہ ہی صدا ہوگی بقول شاعر
خدائے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچالو آکر شفیع محشر ! کہ سارا عالم عذاب میں ہے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ہر گناہ سے دور اور بچنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سرکار علیہ وسلم کی شفاعت کا واسطہ دے کر اپنی مغفرت کروانے کی توفیق بخشے ۔
آمین آمین بجاء الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.