صنف نازک تشدد ، سترہ سال بعد عدالتی کاروائی ، حساب کون دے گا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کے ایک سفید پوش شخصیت نے اپنی بیٹی کا رشتہ یہ کہہ کر اس کے بیٹے کو دیا کہ چلو رشتہ دار ہیں اور بقول شہری لوگوں کے "باہر کے لوگ مارتے ہیں تو ایسے ہی گراتے ہیں لیکن اگر اپنے ماریں گے تو کم از کم چھاﺅں میں تو لاش ڈال دیں گے"یہ ایک پشتو زبان کا محاورہ ہے .سفید پوش شخصیت نے قرضے لیکر اپنی بیٹی کی شادی کردی شادی کے تیسرے ہفتے ہی ساس نے اٹھ کر بہو پر تشدد شرو ع کردیا کہ یہ میری پسند نہیں اور میرے بیٹے کے کہنے پر میں نے اس کی شادی کرائی ہے ، اسی باعث تشدد کاخاتون پر سلسلہ شروع ہوا ، اورساس کی تشدد کا یہ سلسلہ شوہر کی تشدد میں تبدیل ہوگیا کیونکہ شوہر صبح کام پر جاتا تو پھر اس کی والدہ یعنی لڑکی کی ساس شام کو اپنے شوہر کو الٹی پٹی اور جھوٹی باتیں کرکے سنا دیتی اور اپنی ماں کو جنت قرار دینے والا نوجوان بھی بیوی سے پوچھے بغیر ہی تشدد شروع کردیتا .
کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا ، بہو اسی دوران حاملہ بھی ہوئی تب بھی اس پر تشدد ہوتا رہا اور پھر اس کی بیٹی بھی ہوئی ، بیٹی کی پیدائش پر ساس نے یہ کہہ کر تشدد کا سلسلہ مزید تیز کردیا کہ ایک تو تم ہو ، اوپر سے بیٹی پیدا کرکے آئی ہو ، میرا بیٹا کیا کرے گا ، بیٹیاں ہی پیدا کرے گا حالانکہ تشدد کرنے والی خاتون خود بھی عورت تھی لیکن احساس کمتری کی ماری خاتون نے اپنی بہو پر اتنا تشددکیا کہ بہو کو ہسپتال لے جانا پڑا اور ہسپتال کا سنتے ہی لڑکی کے والدین ہسپتال پہنچے تو بیٹی نے نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے ساتھ ہونیوالے واقعات کی داستان سنادی.تبھی ان کے والدین کو احساس ہوا کہ ان کی بیٹی پر دو سال سے زائد عرصے میں کتنا ظلم اس کی اپنی بہن اور بھانجے نے کیا کہ اب اس کی بیٹی ہسپتال پہنچ گئی.
ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد والدین اپنی بیٹی کو گھر لے گئے ، اور یہی سے ساس اور اس کے بیٹے کو غیر ت آگئی اور انہوں نے یہ کہہ کر اسے دبانے کی کوشش کی کہ اپنی بیٹی لے آﺅ ، ہم سے معافی مانگ لو ورنہ ہم تمھاری بیٹی کو طلاق دینگے ، بیٹی کی حالت سے دلبرداشتہ والدین نے یہ کہا کہ ہماری بیٹی پر طلاق کا لفظ استعمال مت کرنا ، لیکن ابھی اس کا علاج ہونا ہے اور جو تم لوگوں نے کیا ہے ا س کا جواب دو ، تاہم لڑکی کے سسرال والوں نے کاغذات پر طلاق لکھ کر دے دیا.
لڑکی طلاق کا یہ لفظ سن کر خاموش ہوگئی ، والدین کے گھر میں رہائش پذیر یہ مطلقہ اپنی بیٹی کو بھی لائی تھی اور اسے اللہ کی رضا سمجھ کر اس پر صبر کرلیا ، لیکن لڑکی کے والد نے عدالت میں نان نفقے کا کیس کردیا ، یہ کیس گذشتہ پندرہ سال سے مختلف عدالتوں میں چلتا رہا . وہ بچی جو آٹھ ماہ کی تھی اور والد نے خود ہی الگ کردی تھی کم و بیش سترہ سال بعد عدالت میں کیس کا فیصلہ سننے آئی تو اس نے اپنے والد کو دیکھ لیا ، والدنے بھی اپنی بیٹی کو دیکھ لیا تو اب والد جس پر نان نفقے کا بوجھ جو کئی لاکھ روپے ہیں اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب یہ کہہ کر معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ میں نے زبان سے طلاق نہیں دی ، صرف کاغذات پر لکھ دیا ہے اور میں اب بھی اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے جانے کو تیار ہوں.
یہ پشاور میں پیش آنے والا ایک حقیقی واقعہ ہے ، عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہیں یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن ان سترہ سالوں کا حساب جس میں دو سال شوہر اور اس کی ماں کی جانب سے کیا جانیوالا تشدد ہے اور یہ سوچ کر برداشت کرتی رہی کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا اس کا حساب کون دے گا ، اس کے والدین کو کون حساب دے گا جنہوں نے یہ سوچ کر اپنی بیٹی کی شادی کی تھی کہ شائد اس کی بیٹی کی زندگی سنور جائے گی اور ایک ذمہ داری پوری ہوگی اسی کے ساتھ ایک معصوم بچی جو آٹھ ماں کی تھی کہ اس کے والد نے اس کی ماں کو کاغذات پر طلاق لکھ کر دئیے تھے یہ سترہ سال اپنی محرومیوں کا حساب کیسے لے گی .
|