داماد کو زيادہ سر نہ چڑھانا ورنہ۔۔۔ والدین کی ایسی غلط سوچ جو ان کی بیٹی کے گھر کو کبھی بسنے نہیں دیتی

image
 
آفٹر آل داماد ہوں کوئی مذاق نہیں ہوں، مشہور مزاحیہ ڈرامے خواجہ اینڈ سنز کا یہ مشہور ڈائیلاگ آج تک لوگ نہیں بھولے- اور بھول بھی کیسے سکتے ہیں جب کہ ان کو ایسی صورت حال کا سامنا دن رات کرنا پڑتا ہے-
 
داماد آپ کی بیٹی کے سر کا تاج
ماضی میں تمام والدین داماد کو بہت عزت دیتے تھے، اگر داماد گھر آجاتا تھا تو گھر کے بہترین برتنوں میں اس کو انواع اقسام کے کھانے کھلائے جاتے تھے۔ سارے سسرال میں داماد کی عزت کروائی جاتی تھی-
 
ایسا کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا تھا کہ لوگ داماد سے ڈرتے تھے یا ان کو اس کے حوالے سے کسی قسم کا اندیشہ ہوتا تھا- بلکہ اس کے پیچھے یہ سوچ ہوتی تھی کہ جتنی داماد کو عزت اور محبت دی جائے گی اتنا ہی وہ ہماری بیٹی کا خیال رکھے گا اور اس طرح سے ہماری بیٹی اپنے گھر میں خوش رہے گی-
 
موجودہ زمانے کی بدلتی سوچ
مگر حالیہ زمانے میں اس سوچ میں کافی تبدیلی واقع ہو چکی ہے جہاں معاشرے میں مرد اور عورت کی مساوات کا نعرہ بلند ہوا- وہیں بہت سارے رشتے اپنی خوبصورتی عزت اور احترام بھی کھو بیٹھے ہیں ایسا ہی ایک رشتہ داماد کا بھی ہے-
 
کل جب والدین بیٹی کو یہ سبق دیتے تھے کہ تمھارا شوہر تمھارا مجازی خدا ہے اور اس کی عزت و احترام تم پر واجب ہے- مگر آج کے دور میں کافی چیزیں تبدیل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف بیٹیوں کا گھر میں بسنا مشکل ہوتا جا رہا ہے بلکہ آئے دن میاں بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑے بھی بے سکونی کا سبب بن رہے ہیں-
 
image
 
داماد کو اہمیت نہ دینا
آج کل کے دور میں داماد کو اہمیت دینے کی رسم میں کافی کمی واقع ہو چکی ہے جس کو اکثر گھرانوں میں بے تکلفی سے بھی عبارت کیا جاتا ہے- مگر یہ بےتکلفی اکثر اوقات شکایت کا سبب بن جاتی ہے جس کا براہ راست اثر آپ کی بیٹی کی زندگی پر پڑتا ہے-
 
اس وجہ سے داماد کے رشتے کو محبت اور احترام ضرور دیں تاکہ اس سے آپ کی بیٹی بھی شوہر کی عزت کا سبق سیکھے- اور ان دونوں کے درمیان تعلقات باہمی عزت و احترام کے ساتھ برقرار رہے-
 
شوہر سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے
ماضی کی نسبت اب اکثر گھرانوں میں بیٹیوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ شوہر سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے تمھارے شوہر کو تو ہم دو منٹ میں سیدھا کر سکتے ہیں ۔ تمھارے شوہر کے لیے تو ہم بھائی ہی کافی ہیں سسرال میں بھرم سے رہا کرو-
 
یہ سب باتیں ایسی ہیں جو کہ لڑکی کے دماغ کو خراب کر دیتی ہیں اور اس کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کے ہر عمل کے پیچھے اس کے میکے والے کھڑے ہوں گے- اس وجہ سے اس کو شوہر کی عزت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی فرمانبرداری کی ضرورت ہے-
 
داماد اور سسرال والوں میں تکرار
ماضی میں براہ راست داماد کے ساتھ تکرار آخری حد ہوتی تھی- اس سے قبل ہر ممکن کوشش یہی کی جاتی تھی کہ داماد اور سسرال والوں میں براہ راست کوئی تکرار نہ ہو کیونکہ یہ عزت و احترام کے منافی ہوتی ہے-
 
اگر کسی قسم کا کوئی تنازعہ ہوتا بھی تھا تو اس کو دوسرے افراد کے ذریعے طے کیا جاتا تھا- کیونکہ سسرال والے اور داماد کا تعلق ساری زندگی کا ہوتا تھا اور اگر اس میں کسی قسم کا بال آجائے تو وہ ساری عمر کے لیے بیٹی کی زندگی کو مسائل کا سبب بنا سکتا ہے-
 
image
 
داماد کو نظر انداز کر دینا
آج کل کے زمانے میں ایک اور سوچ بھی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے جس کے مطابق ہر فرد اپنے گھر کا بڑا ہے اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہے- جبکہ ماضی میں جب بھی سسرال والے کوئی اہم فیصلہ کر رہے ہوتے تھے- وہ فیصلہ چاہے کسی بچے کے رشتے کا ہوتا، یا گھر کی فروخت یا نئے کاروبار کو شروع کرنے کا ہوتا تھا- داماد کو خصوصی طور پر عزت سے بلایا جاتا اور اس سے اس حوالے سے مشورہ طلب کیا جاتا تھا-
 
اس طریقے سے ایک جانب تو دونوں گھرانوں کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا تھا بلکہ داماد اس طرح سے خود کو آپ کے گھر کا فرد سمجھنے لگتا اور قربت میں اضافہ ہوتا-
 
مگر آج کل کے زمانے میں ایسے عمل ختم ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے داماد کے ساتھ جو تعلق بننا چاہیے وہ نہیں بن پاتا ہے- اور میاں بیوی کے معمولی سے تنازعہ کے بعد نوبت طلاق اور علیحدگی تک آجاتی ہے-
 
یاد رکھیں!
شادی دو گھرانوں کا میل ہوتا ہے۔ اور شادی کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری جتنی لڑکا اور لڑکی کی ہوتی ہے اتنی ہی ذمہ داری گھر والوں کی بھی ہوتی ہے- اس وجہ سے ایسا کوئی عمل نہ کریں جو کہ آپ کی بیٹی کا دل اس کے شوہر یا سسرال والوں سے برا کر دے-
YOU MAY ALSO LIKE: