|
|
آچ کل کے دور میں ہر طرف سے یہ صدائيں آرہی ہیں کہ ملک
بھر میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام مسائل کا شکار ہے۔ تو کوئی نلکوں
میں پانی کے نہ آنے پر غصے میں نظر آتا ہے تو کسی کو لوڈ شیڈنگ سے مسئلہ ہے-
جدید دور کی ترقی نے ہمیں بہت آرام طلب بنا دیا ہے اب ہم ان آسائشوں کے
بغیر زندہ رہنے کا تصور نہیں کر سکتے ہیں- مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب
ہمارے بزرگ ان سب چیزوں کے بغیر زندگی گزارتے تھے- |
|
شکر ہے ہم اس دور میں
پیدا نہیں ہوئے |
آج ہم آپ کو ماضی کے کچھ ایسے ہی ادوار کی یاد دلائيں گے
جن میں ہمارے بزرگ نہ صرف زندہ رہتے تھے بلکہ اپنے سارے کام بھی انجام دیتے
تھے- |
|
ٹوائلٹ گھر سے باہر ہوتے
تھے |
ماضی میں گھر کے اندر ٹوائلٹ بنانا بہت معیوب سمجھا جاتا
تھا۔ اس وجہ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے گھر سے باہر کھیتوں میں
جانا پڑتا تھا۔ مرد حضرات کے لیے تو یہ عمل نسبتاً آسان ہوتا تھا مگر
خواتین کے لیے یہ ضروری ہوتا تھا کہ وہ صبح روشنی کے پھیلنے سے قبل حوائج
ضروریہ کے لیے کھیتوں میں چلی جائیں- ایسے میں صفائی کے لیے بھی پانی کے
بجائے پتھر، گھاس یا مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا اور اسی کو کافی سمجھا
جاتا تھا- سوچیں اگر آج کے دور میں یہ سب کرنا پڑے تو کیسے کریں گے یقیناً
یہی کہیں گے کہ شکر ہے کہ ہم اس دور میں پیدا نہیں ہوئے- |
|
|
کھانا بنانے سے پہلے
اوپلے تھاپنے پڑتے تھے |
کھانا بنانا بھی اس وقت میں ایک مشکل کام ہوتا تھا-
کیونکہ گیس کی عدم موجودگی کی وجہ سے چولہوں میں ایندھن کے طور پر یا تو
لکڑی استعمال کی جاتی یا پھر اس کے لئے اوپلوں کا استعمال ہوتا تھا-
اوپلے گائے کے گوبر، اور بھوسے کو گوندھ کر چپٹی شکل میں سوکھنے کے لیے گھر
کی دیوار پر چپکا دیے جاتے تھے اور ان کے خشک ہونے کے بعد ان کو اتار کو
چولہوں میں بالن یا ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا- ان اوپلوں کی
تیاری بھی خاتون خانہ کی ذمہ داری ہوتی تھی جو گھر میں موجود گائے بھینسوں
کی صفائی کے بعد ان کا گوبر جمع کر لیتی تھی- اور ان کے بچے ہوئے بھوسے کی
مدد سے اس گوبر کو گوندھ کر ان کے اوپلے بنا کر دیوار پر تھوپتی تھیں اور
اس کے بعد گزشتہ روز کے بنائے گئے خشک اوپلوں کو جلا کر اس سے کھانا بناتی
تھیں- آج کے دور میں اگر کسی عورت سے یہ کرنے کو کہا جائے تو وہ تو فوراً
طلاق ہی مانگ لے گی- |
|
|
ماشکی پانی لے کر آتا
تھا |
ماضی میں گھروں میں پانی کے نلکے نہیں ہوتے تھے۔ پانی یا
تو گھر کی عورتوں کو مٹکوں میں دور دراز کے چشموں یا کنوئیں سے بھر کر لانا
پڑتا تھا- یا پھر جن گھروں میں عورتوں کو بہت آسائش دی جاتی تھی وہاں پر
ایک مخصوص قیمت پر ماشکی اپنی چمڑے کی مشک بھر کر پانی لاتا جو پینے کے کام
آتا تھا-نہانے کے لیے اور کپڑے دھونے کے لیے کنوئیں یا ندی کے کنارے جایا
جاتا تھا جہاں پر یہ کام کیے جاتے تھے- آج کے دور میں تو کپڑے بھی واشنگ
مشین میں دھلتے ہیں اور نہانے کا پانی بھی نلکوں میں آتا ہے تو شکر کرنا تو
بنتا ہے- |
|
|
روشنی تو صرف سورج کی ہوتی تھی |
پرانے دور میں بجلی کی غیر موجودگی کے سبب انسان کی زندگی کے سارے کام سورج
کی روشنی کے ساتھ شروع ہوتے تھے صبح کا آغاز سورج نکلنے سے ہوتا تھا- اور
جیسے ہی سورج ڈوبتا تھا تھکے ہارے لوگ اس کے ساتھ ہی اپنا بستر سنبھال لیتے
تھے- لالٹین یا روشنی کے دوسرے ذرائع کا استعمال بہت محدود طور پر کیا جاتا
تھا- اور اس سے حاصل ہونے والی روشنی اتنی کم ہوتی تھی کہ وہ صرف تاریکی کو
مٹانے کے کام آتی تھی باقی اس میں کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا- |
|
|
خبریں ڈاکیہ لے کر آتا تھا |
آج کے اس تیز رفتار دور میں دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے واقعہ کی
خبر لمحوں میں مل جاتی ہے- مگر آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی جبکہ کسی قریبی
عزیز کے انتقال کی خبر بھی ڈاکیہ کے آنے سے مشروط ہوتی تھی- آج کل کے دور
میں جب کہ لوگ مرنے والے کی میت کو تین دن کے سوگ کے نام پر لپیٹ دیتے ہیں-
ماضی میں میت کا پرسہ سالوں تک وصول کیا جاتا تھا کیوں کہ دور دراز کے
لوگوں کو جب مہینوں بعد کسی کے مرنے کی خبر ملتی تو وہ اس وقت اپنا بوریا
بستر اٹھا کر تعزیت کے لیے روانہ ہو جاتے تھے- یہی وجہ ہے کہ میت والے گھر
میں سالوں تک میت کا پرسہ وصول کیا جاتا تھا- |
|
|
آج کل کے دور کے انسان کو اگر ان تمام مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع
ملے تو وہ تو وقت سے پہلے ہی مر جائيں- |