سوات کا منفرد گاؤں آریانئی جہاں کے باسی 9 مختلف زبانیں بولتے ہیں

گاؤں آریانئی میں 15 ویں قبل مسیح میں آنے والے آرین قوم سے تعلق رکھنے والوں کی اولادیں رہائش پذیر ہیں جو بعد میں مسلمان ہوئیں،گاؤں کے باسی قومی زبان اردو، مقامی زبان پشتو کے علاوہ 7 مختلف زبانیں بولتے ہیں

دریائے سوات کے کنارے اور خوبصورت پہاڑوں کے بیچ گاؤں آریانئی کا منظر

پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کا ایک ایسا منفرد گاﺅں جہاں صدیوں سے نو قبیلے رہائش پذیر ہیں اور جس کے باسی اپنے اپنے قبیلوں اور گھروں میں 7 مختلف زبانیں بولتے ہیں لیکن باہمی روابط کے لئے سب سے بڑا ذریعہ پشتواور سیاحوں کے ساتھ قومی زبان اردو میں بھی بات کرتے ہیں، اس گاؤں کی خوش قسمتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ خوب صورتی سے نوازا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں اس منفرد گاﺅں کے باسی بنیادی سہولیات تعلیم ، صحت اور سڑکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مشکلات کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،مزے کی بات یہ ہے کہ ان9قبیلوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دوسرے کی زبانوں سے لاعلم ہونے کی وجہ سے اکثر محافل میں گفتگو کے دورا ن ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں اور تب ایک دوسرے کو سمجھانے کیلئے ان کو علاقے میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان”پشتو“ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔

ہم اپنے قارئین کو اس منفرد گاﺅں کا احوال بیان کرنے میں زیادہ دیر تک رکاﺅٹ نہیں بنیں گے آئیے آپ کو اس خوبصورت گاﺅں اور اس میں رہنے والے لوگوںکے بارے میں آگاہ کریں۔یہ ہے سوات کی تحصیل بحرین کے ایک چھوٹے مگر خوب صورت گاؤں آریانئی کا احوال ہم جب اس خوبصورت گاﺅں میں پہنچے تو یہاں کے سابق یوسی ناظم ضیاءالحق اور اس کے بھائی راجہ مجیب خان اور اس کے خاندان کے بڑوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا کیونکہ اپنے خوبصورت ڈیرے پر انہوں نے ہمارے قیام کا انتظام کررکھا تھا اور یہاں پر گاﺅں کے تمام قبیلوں کے افراد اکھٹے ہوکر ہمارے منتظر تھے ، گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے گاﺅں کے نام کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ”حیرانی “ ہوئی کیونکہ نام آریانئی کا وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے گاﺅں کے بڑے بزرگوں نے بتایا کہ یہ ابتدا میں لفظ”حیرانی“ ہی تھا جو بعد میں بگڑ کر ”آریانئی“ بن گیا نام ”حیرانی “ اس لئے رکھا گیا تھا کہ سیاحتی علاقے وادی کالام جاتے ہوئے یہ خوبصورت گاﺅں” آریانئی “کالام سے دو کلومیٹر دوری کی مسافت پر دریائے سوات کے دائیں کنارے پر آباد ہے اور اس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے اتنی خوبصورتی سے نوازا ہے کہ جو بھی یہاں پہنچ کر خوبصورت نظاروں کو دیکھتا تو حیران رہ جاتا تھا لیکن بعض بزرگوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں اس گاﺅں میں” آرین قوم“ کے لوگ آباد تھے اور ہم میں سے بھی بعض قومیں انہیں کی اولادیں ہیں جس کی وجہ سے اس گاﺅں کا نام ” آریہ“ سے آریانی بن گیا ہے ،وجہ جو بھی ہو لیکن اپنی بے پناہ خوبصورتی اور 9 مختلف قوموں کی مثالی وحدت اور آپس میں میل جول کے علاوہ رشتہ داریوں کے باعث اب یہ گاﺅں منفرد مقام حاصل کرچکا ہے ۔

سوات کی سیر کرنے والے مدین ، بحرین کے راستے کالام جاتے ہوئے اس منفرد اور خوبصورت گاﺅں کا نظارہ کرسکتے ہیں،یہ گاؤں دائیں طرف دریا کے اس پار صدیوں سے آباد ہے جہاں پہنچنے کیلئے آسان راستہ کے طورپر لکڑی کے تختوںاور رسیوںکا ایک عارضی پل بنا ہوا ہے جسے عبور کرکے ہی اس گاؤں میں پہنچتے ہیں، تقریباً چھ ہزار آبادی والے اس گاؤں میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ پورے 9 قبیلوں کے 1200 گھرانے رہائش پذیر ہیں جن کے نام یہ ہیں ملاخیل، گاؤری، توروالی، چترالی، گجر، کشمیری، غوربندی، خٹک اور ملیٹ۔یہ قبیلے سات مختلف زبانیں توروالی، گاﺅری، داچوا، کھوار، کشمیری، گوجری اور پشتو شامل ہیں جبکہ آٹھویں زبان اردو بھی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے بولتے ہیں اور زندگی کا سفر آسانی سے گزارنے کیلئے صدیوں سے ان کی اپنی کچھ روایات ہیں جو بزرگوں کی دور سے لے کر آج تک قائم ہیں اور ہر قبیلہ ان روایات کی پاسداری کی پوری پابندی اپنے آپ کیلئے لازمی سمجھتے ہیں ۔ اس خوبصورت گاﺅں میں آج بھی تنازعات وغیرہ حل کرنے کیلئے جرگہ سسٹم رائج ہے جس میں گاﺅں کے بڑے اکھٹا ہوکر کسی بھی مسئلہ پر باہمی مشاورت کرکے اس کا حل نکالتے ہیں اور فریقین اس فیصلہ پر عمل درآمد کی پوری پابندی کرتے ہیں ۔گاﺅں کے بزرگوں کے مطابق ہم اپنے گھروں میں اپنے اپنے قبیلوں کی زبان ہی بولتے ہیں لیکن جب جرگہ ہو یا مسجد میں اکھٹے ہوتے ہوں یا راستے میں علیک سلیک ہوتی ہے تب پشتو زبان ہی کو ترجیح دی جاتی ہے ۔

یہ خوبصورت گاؤں بلند وبانگ پہاڑوں کی دامن میں دریائے سوات کے سنگم پر آباد ہے، یہاں زیادہ تر گھر اور دیگر عمارات لکڑی سے بنی ہوئی ہیں ، سابق ناظم ضیاءاللہ خان کے مطابق یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور یہاں کے باسیوں کا اتحاد مثالی ہے لیکن انہوں نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باﺅجود اب تک کسی بھی حکومت نے اس خوبصورت علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دی ہے ، انہوں نے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے علاقے میں ایک پرائمری سکول ہے جس میں پڑھنے والے بچے اکثر مڈل اور ہائی سکول دورہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر بہتر مستقبل سے محروم رہ جاتے ہیں نیز صحت اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے خا ص طورپر جب کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو مین شاہراہ تک پہنچنے کیلئے اس گاﺅں کے کچے پکے راستے پراکثر مریض راستے میں ہی دم توڑجاتے ہیں ۔

گاﺅں کے رہائشی اور ماہر تعلیم محمد یوسف نے بتایا کہ!تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی کے علاوہ اس خوبصورت اور تاریخی گاﺅں میں کھیل کا کوئی میدان بھی نہیں جس کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کو کھیل کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے،بچے ہوں یا نوجوان وہ اپنا وقت گزارنے کیلئے گھروں کی چھتوں پر ہی روایتی کھیل گلی ڈندا، گولیاں کھیلنا اور دیگر روایتی کھیل کھیلتے ہیں۔

گاﺅں کے نوجوانوں نے بتایا کہ یہاں بہت ٹیلنٹ ہے لیکن آگے بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے واحد پرائمری اسکول ہے اس کے بعد یا تو دور دراز کے علاقوں میں جانا ہوتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور یا اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں،اس گاؤں میں ڈھائی سو سال سے زائد کی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس گاؤں کی عظمت رفتہ کی داستان سنارہی ہے ،وقت کے ساتھ ساتھ اس مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کے باعث جب دوبارہ تزئین وآرائش کی ضرورت محسوس کی گئی تو تمام قبیلوں کے بڑوں نے مشترکہ طورپر فیصلہ کیا کہ مسجد کی بیرونی دیواریں جو خستہ حال ہوچکی تھیں کو دوبارہ اسی طرح سے تعمیر یا مرمت کیا جائے کہ مسجد کی اصل ہیئت کو نقصان نہ پہنچے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخی مسجد کا اندرونی ہال اب بھی اپنی اصل خدوخال میں موجود ہے صرف مسجد کے ممبرکو دوبارہ سے نئے انداز میں قیمتی دیا رکی لکڑی سے تعمیر کیا گیا ہے ، مسجد کی پرانی چھت جس میں قیمتی دیار کے بڑے بڑے شہتیر لگے ہوئے ہیں ان کی کم سے کم لمبائی 50 فٹ اور چوڑائی ڈھائی فٹ تک ہے اسی طرح مسجد کے درمیان میں لگے لکڑی کے ستون بھی دیار کے دیوہیکل شہتیر ہیں جنہیں کمال صفائی کے ساتھ کھڑا کرکے اس پر مسجد کی چھت ڈالی گئی ہے ،اس مسجد کے تعمیر کی حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی پرانی دیواریں 6 فٹ سے لے کر 8 فٹ تک چوڑی تھیں ،گاﺅں کے تمام قبائل کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس مسئلے کو سلجھانے کیلئے مسجد میں بیٹھ کر یا گاﺅں میں موجود ایک پرانے جرگہ ہال میں بیٹھک لگا کر افہام وتفہیم سے مسائل حل کرتے ہیں جرگہ کا ہر رکن یہ کوشش کرتا ہے کہ فریقین کے عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ایسا فیصلہ کرے جس سے دونوں فریقین مطمئن بھی ہوں اور مسئلہ بھی حل ہوجائے ۔
الغرض کئی قومیں اور8 مختلف زبانیں بولنے والوں کے گاؤں آریانئی میں صدیوں سے آباد قبیلوں نے اپنی روایات کو ترک کرکے قومی وحدت کی ایک نئی مثال قائم کردی ہے۔ پشتو ،اردو سمیت اگرچہ یہاں 7مقامی زبانیں رائج ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گاﺅں کا ہر باسی قومی زبان اردو کو بھی کسی نہ کسی حدتک سمجھتا ہے جس سے وہ ملک کے دیگر علاقوں سے اس گاﺅں میں آنے والے سیاحوں سے گفتگو کرتے ہیں ۔گاﺅں آریانئی اپنے باسیوں کی مختلف زبانوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت لینڈ سکیپ کی وجہ سے بھی ایک منفرد گاؤں ہے اس گاﺅں تک پہنچنے کیلئے آپ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے بالائی علاقوں کی طرف جاتے ہوئے مدین سے گزر کراور بحرین سے کالام جاتے ہوئے دریائے سوات کے دائیں کنارے پر اس پار ایک تنگ سے درے کے بعد یہ حسین وادی آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے،دریائے سوات کے مغربی کنارے پر پشمال اور مشرقی کنارے پر پہاڑ کے دامن میں اوپر تلے چھوٹے چھوٹے زمین کے قطعے ہیں جہاں مختلف قسم کی سبزیاں بند گوبھی،مٹر،سیب، ناشپاتی ، اخروٹ اورآلو کی فصلیں اس گاﺅں میںکاشت ہوتی ہیں،انہی سرسبز اور شاداب کھیتوں میں آریانئی کا منفرد قصبہ ہے جہاں بارہ سو کے قریب مکانات بھی کھیتوں کی طرح پہاڑ کے دامن تک ایک سیڑھی سی بنائے ہوئے ہے۔ اس گاﺅں کے بالکل اوپر کوہ ہندو کش کا حسین وجمیل نظارہ بھی دیکھنے والا ہے جو ہر طرف قیمتی دیار کے جنگلات سے مہک رہا ہے،آریانئی میں جو سات زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں توروالی، گاﺅری، داچوا، کھوار، کشمیری، گوجری اور پشتو شامل ہیں جبکہ آٹھویں زبان اردو بھی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، یہاں پر صرف ایک پرائمری سکول ہے جو علاقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا واحد ذریعہ ہے اور مزید پڑھنے کیلئے کئی کلو میٹر پید ل سفر کرنے کے بعد دیگر علاقوں میں موجود مڈل سکول تک پہنچا جاسکتا ہے لیکن علاقے کی مخصوص روایات کے تحت بچیوں کے لئے اتنی دور پڑھائی کیلئے جانا کسی صورت ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پھر چار جماعت پڑھنے کے بعد بچیوں کے مزید پڑھنے کا خواب ادھورا رہ جاتا ، پہاڑ کے دامن میں علاقے کی واحد مسجد ہے جس میں عبادت کے علاوہ سات زبانیں بولنے والے بعض اوقات اپنے مسائل کے حل کیلئے بیٹھک بھی لگاتے ہیں ۔علاقے کے باسی گاﺅں کے نام ، زبانوں اور بودوباش کے حوالے سے کئی طرح کے خیالات بھی رکھتے ہیں لیکن اکثریتی باشندوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں بسنے والے ساتوں قبیلے الگ الگ مقامات سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ اس نام کی نسبت آرین سے ہے جو تقریباً 15ویں صدی قبل مسیح میں ہندوستان سے آکر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے تھے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ لفظ ”حیرانی “ سے بگڑ کر آریانئی بن گیا ہے تاہم ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اس گاﺅں کے حوالے سے ریاست سوات کے والئی کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے زیادہ زبانیں سیکھنی ہوں تو وہ آریانئی میں کچھ عرصہ گزار لے اس کے علاوہ اس گاﺅں کی یہ افادیت بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس علاقے سے ریاست سوات کے دور میں قاضی بھی ریاستی امور میں خدمات انجام دینے کیلئے فرائض کا اعزا ز حاصل کرچکے ہیں ،تاریخی حوالوں سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والے قبیلوں میں سے کچھ راجہ گیرا جسے سلطان محمود غزنوی نے اوڈی گرام کے مقام پر شکست دی تھی کی اولاد سے نسبت رکھتے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوکر آریانئی یا دیگر ملحقہ علاقوں بحرین اور کالام میں آباد ہوئے ، حقیقت کچھ بھی ہو بلاشبہ آریانئی اپنی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت زیادہ زیادہ اہمیت کا حامل گاﺅں ہے جہا ں کے باسی دنیا بھر میں منفرد مقام رکھنے کے باﺅجود اکیسویں صدی میں بھی دورجدید کی سہولیات سے محروم ہیں علاقے کے ماہر تعلیم محمد یوسف سمیت دیگر عمائدین سابق یوسی ناظم ضیاءالحق ، راجہ مجیب سمیت سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت اس خوبصورت علاقے کی تاریخی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے یہاں دورجدید کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے سمیت تعلیم ، صحت اور سڑک کے مسائل حل کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے تاکہ اس خوبصورت علاقے کی لوگوں کی مسائل میں کمی آسکے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 62 Articles with 49502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.