سوات میں خوشی وغمی کے مواقع پرفرسودہ رسومات سے چھٹکارے کی مہم

خوشی وغمی کے موقع پر فرسودہ رسومات کے خاتمہ کیلئے سوات کے گاؤں درشخیلہ مٹہ سے شروع ہونے والی مہم اب پورے سوات میں تیزی سے پھیل رہی ہے

رسم نکاح کے موقع پر گاؤں کے بڑے ، بزرگ صلاح مشورہ کررہے ہیں

ابن آدم کو دنیاوی زندگی میںمعاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ خوشی اور غمی کے مواقع پر مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس کیلئے مختلف علاقوں اور اقوام کی اپنی کچھ روایات ہوتی ہیںجس پر وہ صدیوں سے عمل پیرا چلا آرہے ہیں ، بدلتے حالات کی وجہ سے کچھ علاقوں اور اقوام کی روایات میں تبدیلی بھی آتی رہتی ہے اسی طرح آج کل کی دنیا میں شادی بیاہ اور غم کے موقع پر کچھ غیر ضروری رسموں نے اگر ایک جانب متمول گھرانوں کیلئے خوشی کا سماں پید اکردیا ہے تو دوسری جانب انہی رسموں نے غریب اور استطاعت نہ رکھنے والے خاندانوں کو کئی طرح کے مسائل و مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور بعض مقامات پر تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اپنی جائیدادیں فروخت کرنے یا قرض لے کر معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے کیلئے ان رسومات کی ادائیگی پر مجبور ہیں۔

شادی بیاہ اور غم کے مواقع پر مختلف ناموں سے منسوب غیر ضروری اور غیر روایتی رسم و رواج ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں اور ان فضول رسومات کی وجہ سے شادی بیاہ حتیٰ کہ اپنے پیاروں کی فوتگی کے غم کے مواقع پر فاتحہ خوانی کو بھی مشکل بنا دیا گیا ہے، شادی بیاہ میں غیر ضروری رسموں، جہیز کی لعنت اور بے جانمودونمائش پر خرچ کی جانے والی بھاری اخراجات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے غریب گھرانوں کی بچیاں شادی کی عمر گزرنے کے باﺅجود بالوں میں چاندی کے تار سجاکر گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں ۔

پختون معاشرہ جو ماضی میں سادگی کی وجہ سے مشہور تھا اور ان کی رسمیں خوشی وغمی کے مواقع پر اپنی سادگی کی وجہ سے مثالی تھیں وہ آج کل ان غیر ضروری رسموںکی وجہ سے مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں، آبا ﺅ اجداد انتہائی سادگی سے شادی بیاہ کی رسومات ادا کرتے اور غم میں فاتحہ خوانی بھی انتہائی سادگی سے ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ دنیا گلوبل ویلج بننے کے ثمرات ، میڈیا پر غیر ضروری نمودونمائش ، باالخصوص پڑوسی ملک بھارت کی چینلز پر ڈراموں کی بھر مار میں دکھائی جانے والی ہندوانہ رسموں کی چکا چوند اور ناجائز طریقوں سے دولت کی حصول کے بعد کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہونے کے سبب دن بہ دن رسم و رواج کے نام پر نت نئی فرمائشوں، شادی بیاہ میں ہونے والے بے جا اخراجات نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اب یہ زخم بڑھتے بڑھتے ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے اب روکنے کی سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ ان رسموں کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اگر ان رسومات کو ترک نہ کیا گیا یا ان کا راستہ نہیں روکا گیا تو آنے والی نسلیں ہم میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کریں گی۔

سوات جو اپنی منفرد روایات کیلئے مشہور ہے اور یہاں اب بھی پرانی رسموں رواج کے مطابق ان اہم مواقع پر لوگ سادگی کو پسند کرتے ہیں لیکن شہری علاقوںکے بعد دیہی علاقوں میں نئی رسموں کی وجہ سے مشکلات سر اُٹھارہے ہیں ،بے جارسموں کی تدارک اور مستقبل میں مشکلات سے بچنے کیلئے اس مہم کا آغاز اگرچہ سال ڈیڑھ سال پہلے کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سوات کے مختلف علاقوں بریکوٹ، گاو ¿ں مانیار، گاو ¿ں پارڑئی اور دوسرے ملحقہ مواضعات کے معززین کوششیںکرتے ہوئے آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں میں ان غیر ضروری رسومات کے خلاف شعور اُجاگر کرتے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے عملی اقدام تحصیل مٹہ کے گاو ¿ں کوزہ درشخیلہ کے درد دل رکھنے والے ڈاکٹرانور اور خادم اللہ نے باقاعدہ طور پر ان فضول رسومات کے خلاف کچھ اصول و ضوابط مقرر کرکے اسے ایک طرح سے عملی جامہ پہنایا ،یوں اسے درشخیلہ کے عام لوگوں کی پذیرائی حاصل ہوئی اور سب لوگوںنے متفقہ طور پر اس مہم کو گاو ¿ں درشخیلہ کی حد تک کامیاب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے روح رواں ڈاکٹر انور نے خود استطاعت رکھنے کے باﺅجو د اپنے گھر سے اس اہم فریضہ کی ادائیگی سادگی کے ساتھ کرتے ہوئے مسجد میں اپنے بھتیجے کی نکاح کی رسم کھجو ر اورایک گلاس شربت کے ساتھ ادا کرتے ہوئے مہم کی کامیابی کی شروعات کا آغاز کردیا جسے علاقے کی لوگوں نے سراہتے ہوئے ان کی دیکھا دیکھی مزید خاندانوں نے بھی اپنایا اور اپنے آپ کو غیر ضروری رسموں سے بچانے کیلئے اس اہم مہم کا حصہ بنے ۔

پختون معاشرہ میں ان بے جا رسموں سے پریشان مختلف علاقوں کی لوگوںنے جب درشخیلہ کے لوگوں کی اس سادگی مہم کے فوائد کو پیش نظر رکھا تو بریکو ٹ کے علاقے میں بھی اس طرح کے مہم کی کامیابی کیلئے تگ ودو شروع کردی گئی اور پھر شموزئی کے علاقے ڈڈھارہ کے باسیوں ڈاکٹر اسحاق میاں اور شریف زادہ نے بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سادگی کے اس مہم میں اپنا حصہ ڈالنے کی ٹھان لی اور ان کی دیکھا دیکھی گاو ¿ں ڈڈھارہ میں بھی شادی بیاہ میں نمود و نمائش کےلئے کی جانے والی شاہ خرچیوں سے تنگ لوگوں نے علمِ بغاوت بلند کیا اور مذکورہ مواقع پر غیر ضروری اور فضول رسومات کو ختم کرکے سادگی اور آسانی پیدا کرنے کی غرض سے گاو ¿ں کے دیگر معززین کے ساتھ مل کر متفقہ اصول اپنانے پر باہمی رضامندی اور متفقہ فیصلہ کرنے کےلئے صلاح و مشورے شروع کردئے۔

اس ضمن میں چونکہ ان کے سامنے گاﺅں درشخیلہ میں شروع کردہ سادگی مہم کی مثال موجود تھی جس کیلئے ڈاکٹر انور، خادم اللہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے پہلے ہی سے کچھ اصول و ضوابط مقرر کر رکھے تھے، لہٰذا ان کی وضع کردہ قوانین سے استفادہ کرنے کیلئے ان کے شروع کردہ طریقہ کار کو گاؤں کے معززین کے سامنے پیش کرکے رائے جاننے اور ضروری ترامیم کے بعد گاؤں ڈڈھارہ کے غریب، امیر اور متوسط طبقے کیلئے آسانی پیدا کرکے راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی تاکہ سادگی سے متفقہ اصول اپنا کر شادی، بیاہ اور غم میں غیر ضروری رسم و رواج سے چھٹکار ا حاصل کرکے زندگی کو آسان بنایا جائے۔ چونکہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے تو اس مہم کی کامیابی کیلئے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی ٹھانی گئی اور درشخیلہ کے لوگوں کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق پر مشتمل ایک پمفلٹ کو سوشل میڈیا پر وائرل کردیا گیا تاکہ لوگ اس حوالے سے اپنی رائے دے سکیںجس میں واضح الفاظ میں غیرضروری رسموں سے چھٹکارے اور سادگی پر مبنی ہدایات کوملاحظہ کیا جاسکتا ہے،مشتہر کردہ پمفلٹ میں واضح الفاظ میں تمام تر شقوں کی وضاحت موجود ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کسی قسم کی غیر ضروری رسموں کی بجائے سادگی کو اپناتے ہوئے دلہا اور دلہن کے خاندانوں کو بے جا اخراجات سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے جو اصراف کے زمرے میںآتے ہیں اس کے علاوہ فوتگی کی صورت علاقے میں جاری فضول رسموں جن کی وجہ سے غریب گھرانے کئی طرح کے مسائل کا شکار تھے میں بھی ضروری ترامیم کی گئی کیونکہ فوتگی ہوتے ہی علاقے کے لوگ اپنے گھروں کو تالے لگا کر تقریباً 10 دن تک میت والے گھر میں بیٹھے رہتے اور تین وقت کا کھانا میت والے گھر سے کھاتے تھے نیز چائے کے ساتھ بسکٹ، مٹھائیاں رکھنے کی رسم کی وجہ سے لوگ شدید مشکلات کا شکار تھے اس کی بجائے صرف تین دن ان مہمانوں کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جو دور دراز کے علاقوں سے میت والے گھر میں ٹھہرے ہوتے،اسی طرح شادی کی رسومات کو سادگی سے منسلک کرتے ہوئے نکاح کے وقت صرف کجھور اور شربت کے ساتھ تقریب میں شرکت کرنے والوں کی تواضع کی ہدایت کی گئی تھی، دلہن کی مہر کے حوالے بھی استطاعت سے تجاوز کی ممانعت کی شق شامل کی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے ہر اچھے کام میں رکاﺅٹ ڈالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی یہاں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا اور اس اہم مہم کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا کے کچھ نمائندوں نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے خلاف منفی رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ مشہور کیا کہ کمیٹی ارکان نے یہ پابندی عائد کررکھی ہے کہ اگر کسی نے شادی بیاہ یا غم کے موقع پر کمیٹی کے وضع کردہ ہدایات سے تجاوز کیا تو ان کے گھروں میں خوشی اور فوتگی کی صورت امام مسجدان کے نکاح اور نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے حالانکہ شائع کردہ ہدایات نامہ میں یہ کہیں پر بھی نہیں لکھا گیا ہے اور نہ اس قسم کی کوئی بات ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کی گئی ہے، سوشل میڈیا پر یہ غلط تاثر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جس کی وجہ سے سوات کے ضلعی انتظامیہ نے مذکورہ افراد کو طلب کرکے باز پرس شروع کی لیکن لیکن کوئی خلاف شرع بات ثابت نہ ہونے اور تسلی ہونے پر مذکورہ افراد کی گلو خلاصی ہوگئی۔

قصہ مختصر جن علاقوں میں یہ اچھی کوشش کی گئی ہے حقائق جاننے کیلئے جب راقم دیگر میڈیا نمائندوں کے ہمراہ گاﺅں درشخیلہ پہنچے تو ڈاکٹر انور ، خادم اللہ نے اپنے ڈھیرے پر پرتپاک استقبال کیا اور گاﺅں کے لوگوں نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر نہ صرف اپنے معززین کی کوششوںکو سراہا بلکہ یہ بھی کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس سادگی مہم کو ملک کے کونے کونے تک پھیلا یا جائے تاکہ زندگی کے ان اہم مواقع کے فریضوں کو خوش اسلوبی سے استطاعت کے مطابق ادا کرتے ہوئے کسی شخص یا کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ، اس حوالے سے گاﺅں ڈڈھارہ میں شروع کردہ مہم کے روح رواں ڈاکٹر اسحاق میاں جو سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم ہے نے ٹیلیفونک رابطہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف دین اسلام کے وضع کردہ سادہ طریقوں سے زندگی کے اہم فریضوں کی ادائیگی ہے جو بے جا اور فرسودہ رسموں کی وجہ سے مسائل کا باعث بنے ہوئے ہیں ، گاﺅں درشخیلہ میں معززین کے مطابق اب تک تقریباً20 خاندانوںکے بچوں کانکاح اس سادہ طریقے سے کیا گیا ہے جس پر ہزار دو ہزار سے زیادہ خرچ نہیں اٹھا ہے۔ڈاکٹر اسحاق نے منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے شروع کردہ طریقہ کار سے پہلے کیا حکومت نے کچھ عرصہ قبل شادی بیا ہ میں غیر ضروری اخراجات پر پابندی عائد کرتے ہوئے شادی بیاہ کی تقریبات میں ”ون ڈش“ کی مہم شروع نہیں کی تھی اگر حکومت فضول رسموںکے خاتمے کی بات کرتی ہے اور پھر یہی بات عوامی سطح پر کی جائے تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا معاشرہ کمزور طبقات پر مشتمل ہے جن کے مسائل متمول خاندانوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں لہذا معاشرے کے تمام طبقات مل کر ان بے جا رسموں کے خلاف مل کر توانا آواز اُٹھائیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو ان کمر توڑ رسموں سے نجات دلا کر مستقبل میں اپنے آنے والی نسلوں کو زندگی آسان طریقے سے گزارنے کا موقع فراہم کرسکیں۔

شادی بیاہ اور غمی کی رسومات کے حوالے سے ممتاز عالم دین مفتی اسداللہ نے بتایا کہ دین اسلام بنی نوع انسان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا دین ہے ،جو مشکلات ہیں یہ لوگوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں لہذا ان سے جتنا جلد چھٹکارا حاصل کیا جائے یہ سب کیلئے بہتر ہوگا، انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ نکاح کو آسان کرو اور اس کی بہترین مثال فاطمہؓ اور حضرت علی ؓ کی رسم نکاح کا واقعہ ہے جو انتہائی سادگی سے ادا کی گئی تھی اس کے علاوہ غمی کے مواقع پر لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہوئے مقامی لوگوںکو میت والے گھر سے کھانے پینے میں احتراز کرنا چاہئے اسی طرح ہم دنیاوی زندگی میں آسانی اور اُخروی زندگی میں اللہ کے روبرو سرخ رو ہوں گے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 43 Articles with 26282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.