اضافی آمدنی کے چکر میں اپنا پیسہ بھی لُٹ گیا، ڈبل شاہ کے بعد ایک بار پھر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کا چونا لگانے والا کون جانیں

image
 
آج کل ملک کے معاشی حالات کے سبب ہر کوئی پریشان نظر آتا ہے۔ تنخواہ دار فرد کی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہو رہا ہے تو کاروباری افراد بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ گھریلو خواتین بھی اس بات کی خواہشمند نظر آتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے فارغ وقت کو کسی ایسے کام میں گزار لیں جس سے کچھ اضافی آمدنی بھی ہو سکے-
 
زيادہ کی لالچ میں اپنے پیسے بھی گنوا دینا
معاشیات کا ایک اصول ہے کہ جس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے اس کی سپلائی میں اضافہ ہو جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ جب سے لوگوں نے آن لائن اضافی آمدنی کے ذرائع ڈھونڈنے شروع کیے ویسے ویسے سوشل میڈیا پوسٹ سے ایسے کئی افراد دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ آپ کو آن لائن آمدنی کا قابل بھروسہ ذریعہ ہیں-
 
کوئی کہتا ہے کہ صرف اشتہار دیکھیں اور پیسے کمائیں اور کوئی رجسٹریشن کی ڈیمانڈ کرتا ہے- جس سے شروع میں تو کچھ پیسے مل بھی جاتے ہیں مگر اس کے بعد جب لوگ ایسی ویب سائٹس پر اپنا پیسہ لگانا شروع ہو جاتے ہیں تو ایک دن یہ لوگ سارے پیسے سمیٹ کر غائب ہو جاتے ہیں-
 
ڈبل شاہ کے بعد ایک بار پھر پاکستانی لٹ گئے
جو پیسہ محنت کے بغیر ملے اور بہت سارا ملے تو یقینا ًاس میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہوگی- یہ وہ اصول ہے جو کہ ہر سمجھدار انسان کو ضرور اپنانا چاہیے۔ لیکن انسان کی فطرت میں موجود لالچ اس کو سب کچھ بھلانے پر مجبور کر دیتی ہے-
 
ماضی میں اسی طرح کا ایک واقعہ پہلے بھی پاکستانیوں کے ساتھ ہو چکا ہے جبکہ ایک اسکول ٹیچر نے ان کے پیسے کو ڈبل کر کے دینا شروع کر دیا۔ لوگ ایک لاکھ دیتے اور اگلے مہینے دو لاکھ واپس لے لیتے۔ اگرچہ یہ اضافہ عقل و شعور سے بھی ماورا تھا۔ مگر پھر بھی لوگوں نے اس ڈبل شاہ کے پاس کروڑوں روپے دینے شروع کر دیے۔ اور پھر جب اس شخص کی حقیقت سامنے آئی تو ہزاروں لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو گئے-
 
image
 
ایسا ہی کچھ گزشتہ ہفتے وسطی پنجاب کے رہنے والے افراد کے ساتھ ہوا جو کہ آن لائن آمدنی کی لانچ میں آئی ڈی اے نامی ایک ایپ استعمال کر رہے تھے-
 
یہ ایپ لوگوں کو ان کی سرمایہ کاری کے بدلے میں گزشتہ کئی مہینوں سے منافع دے رہی تھیں- یہ ایپ ایک گیم کی طرح تھی جس میں لوگ کرپٹو کرنسی میں اپنا پیسہ لگاتے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کاروبار میں نفع کماتے-
 
یہ ایپ گوگل پلے اسٹور کے ذریعے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی تھی جس کے بعد شناخت کے ایک پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد رجسٹریشن کا عمل مکمل ہوتا ہے- جس کے بعد اس میں اگر آپ 130 ڈالر جمع کرواتے ہیں تو آپ کو فوری طور پر 15 ڈالر کا منافع ملتا ہے- اس کے بعد اس ایپ پر ہر روز 30 کلک کرنے ہوتے ہیں جن پر منافع ملنا شروع ہو جاتا ہے-
 
اس میں جب کلک کیا جاتا ہے تو آپ کے جمع کیے گئے سارے پیسے چار منٹ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں جس کے بعد منافع کے ساتھ کچھ ہی دیر میں واپس آجاتے ہیں-
 
اس ایپ کی مارکیٹنگ کے لیے تین ماہ کے اندر سرمایہ کاری کو 300 ڈالر تک بڑھانا ہوتا ہے اور اس طرح سے دو مزید افراد کو اس ایپ کو ڈاون لوڈ کروانا ہوتا ہے- اس طرح سے ایک جانب تو ایپ کا دائرہ کار بڑھتا ہے اور لوگوں کی لالچ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے- ابتدا میں تو جب لوگوں کی انویسٹمنٹ کم تھی تو منافع بھی لوگ فوری طور پر نکلوا لیتے تھے-
 
image
 
مگر جیسے جیسے لوگوں کی انویسٹمنٹ بڑھنے لگی اور لوگوں نے اس ایپ میں لاکھوں روپے انویسٹ کر دیے تو منافع ملنے کے عمل میں تاخیر ہونے لگی- یہاں تک کہ مارچ کے مہینے کے اختتام پر اچانک اس ایپ میں خرابی کی اطلاعات ملنے لگیں اور شروع شروع میں تو واٹس ایپ گروپ میں اس ایپ کو چلانے والوں نے لوگوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی- مگر پھر ایک دن وہی ہوا جو ایسے تمام فراڈ میں ہوتا ہے کہ لوگوں کے کروڑوں روپے سمیٹ کر وہ لوگ غائب ہو گئے-
 
ایف آئی اے کی تحقیقات کا آغاز
جب لوگوں نے اس حوالے سے ایف آئی اے کو شکائت کی تو انہوں نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے مگر اب پچھتاوے کیا ہوؤت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت-
 
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام ایپس کے حوالے سے ایسے قوانین بنانے چاہیے ہیں جو کہ ایسی کسی بھی ایپ کے سامنے آنے پر اس کی رجسٹریشن کا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ تاکہ لوگوں کو اس قسم کے فراڈ سے بچایا جا سکے-
YOU MAY ALSO LIKE: