سویڈن میں اعلی تعلیم وتحقیق بلند معیار کی ہونے کی وجہ
سے بہترین عالمی ساکھ رکھتی ہے۔ سویڈن کی جامعات دنیا کی بہترین
یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے طالب علم تحصیل
علم کے سویڈن کا رخ کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس کے عوض بھاری فیس ادا کرنا
پڑتی ہے۔ ایک وقت تھا جب سویڈن میں بین الاقوامی طلبہ کے لئے بھی تعلیم مفت
تھی۔ تب پاکستان سے ہزاروں طلبہ سویڈن کی درسگاہوں میں اعلی تعلیم کے لئے
آتے تھے۔ کچھ عرصہ سے غیر یورپی طلبہ کو بھاری ٹیوشن فیس ادا کرنا پڑتی ہے
لیکن اس کے باوجود طلبہ کی بڑی تعداد اب بھی سویڈن کا رخ کرتی ہے جن میں
پاکستانی طلبہ بھی شامل ہیں۔ پاکستان سے زیادہ تر طلبہ انٹر نیشنل ماسٹرز
پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں کیونکہ اس کی تدریس انگریزی زبان میں ہوتی ہے۔
سویڈن میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آنے کی ایک وجہ یہ بھی کی دوران تعلیم کام
کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر کوئی طالب علم مالی دشواریوں کی وجہ سے
تعلیم جاری نہ بھی رکھ سکے تو وہ پہلا سیمسٹر پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے
لئے سلسلہ تعلیم روک کر کام کرنے کی اجازت لے کر کام شروع کردیتا ہے اور
دوبارہ بعد میں اپنی ڈگری مکمل کرسکتا ہے۔ اس طرح ایک اسے مالی فوائد حاصل
ہوجاتے ہیں اور دوسرا اسے بقیہ دورانیہ کی فیس بھی ادا نہیں کرنا پڑتی۔
سویڈن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی
اعلی معیار ہونے کہ وجہ سے یہاں سے ڈگری رکھنے والوں کو دنیا کے ہر ملک میں
کام ملنا آسان ہوجاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد
سویڈن میں کام اور پی ایچ ڈی کے مواقع ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ سویڈن میں
پی ایچ ڈی ایل طرح کی ملازمت ہوتی ہے اور پورے عرصہ میں معقول تنخواہ بھی
ملتی ہے۔
سویڈن میں سیمسٹر سسٹم ہے اور سال میں جنوری اور اگست سے نئی کلاسز شروع
ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی اور پاکستانی طلبہ عمومی طور اگست سے شروع ہونے
والے سیمسٹر کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ اس کے لئے داخلے کا سلسلہ چند ماہ پہلے
شروع ہوجاتا ہے، پھر مارچ اور اپریل میں طلبہ کو متعلقہ یونیورسٹی سے اطلاع
ملنا شروع ہوجاتی ہے کہ آپ کا داخلہ ہوگیا ہے لہذا اپنی ٹیوشن فیس جمع کروا
کے اپنے ملک میں سفارت خانہ سویڈن سے رابطہ کریں تاکہ آپ کو ویزہ جاری کیا
جاسکے۔ سویڈن کا سفارت خانہ اس ضمن میں سویڈش مائیگریشن بورڈ کی معاونت سے
داخلہ لینے والے طلبہ سے رابطہ کرتا ہے اور تمام مراحل طے ہونے کے بعد
سویڈن کا ویزہ جاری کیا جاتا ہے اور طلبہ اگست میں سویڈن آکر اپنا تعلیمی
سفر شروع کرتے ہیں۔ سفارت خانہ کے بغیر نہ تو طلبہ کو ویزہ ملتا ہے اور نہ
ہی وہ سویڈن آسکتے ہیں۔
اس مرتبہ پاکستان سے جو طلبہ اگست سے شروع ہونے والے تعلیمی سال کے لئے
داخلہ کے خواہش مند ہیں انہیں شدید پریشانی ہے جس کی وجہ اسلام آباد میں
سویدش سفارت خانہ کی بندش ہے۔ سفارت خانہ بند دہونے کی وجہ سے وہ سویڈش
یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے کے باوجود سویڈن نہیں آسکیں گے ۔ ماہ فروری سے
اسلام آباد میں سویڈش سفارت خانہ نے کام کرنا بند کردیا اور کسی قسم بھی
ویزہ درخواست وصول نہیں کہ جارہی ۔ سفارت خانہ کے بند ہونے کہ وجہ سویڈن
میں قرآن سوزی کے واقعات کے بعد پاکستان میں زبردست احتجاجی مظاہروں اور رد
عمل ہے۔ ان مظاہروں میں جس شدید رد عمل کا اظہا رکیا گیا، سویڈش حکومت نے
اپنے سفارتی عملہ کی اور وہاں آنے والوں کی سلامتی کے پیش نظر سفارت خانہ
بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تاحال کوئی اطلاع نہیں کہ سفارت خانہ کب کھلے
گا۔ کچھ سویڈش یونیورسٹیوں کی جانب سے طلبہ کا آگاہ کیا ہے کہ سفارت خانہ
2023ء میں پورا سال بند رہے گا۔ اس اطلاع نے طلبہ میں تشویش کی لہر دوڑا دی
ہے۔ علاوہ ازیں کاروباری طبقہ اور وہ لوگ جو اپنے عزیزوں سے ملنے سویڈن
جانا چاہتے ہیں، وہ سب بھی پریشان ہیں۔ کچھ طلبہ نے ایران اور دوبئی میں
سویڈن کے سفارت خانہ سے رابطہ کیا ہے کہ چونکہ ا ن کا سویڈن کی یونیورسٹیوں
میں داخلہ ہوگیا ہے اور انہوں نے فیس بھی ادا کردی ہے لہذا ان کی سویڈن کے
ویزا کی درخواست وصول کی جائے۔ اس پر دونوں ممالک میں سویڈن کے سفارت خانوں
نے درخواستیں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور جواب میں کہا کہ صرف متعلقہ
ملک کے رہائشی ہی درخواست دے سکتے ہیں۔ سویڈش یونیورسٹیوں نے بھی پاکستانی
طلبہ سے کہا کہ وہ ابھی فیس جمع نہ کروائیں جب تک اسلام آباد میں سویڈش
سفارت خانہ کھل نہیں جاتا۔ یہ صورت حال پاکستانی طلبہ کے لئے بہت پریشان کن
ہے اور اگر سویڈن کا سفارت خانہ جلد نہ کھلا تو ان کے داخلے ضائع جائیں گے۔
حکومت پاکستان کو سویڈش حکام سے فوری بات کرکے اس معاملہ کوحل کرونا چاہیے۔
سویڈن میں قرآن سوزی کا واقعہ سٹاک ہوم میں میں ترکیہ کے سفارت خانہ کے
سامنے پیش آیا تھا جس کے رد عمل میں ترکی میں مظاہرے بھی ہوئے اور وہاں
سویڈن کے سفارت خانہ کے سامنے احتجاج بھی ہوا ۔لیکن ترکیہ میں سویڈن کا
سفارت خانہ چند دن بند رہنے کے بعد دوبارہ کھل گیا ہے۔ اسی طرح دیگر جن
ممالک میں مظاہرے ہوئے وہاں بھی سویڈن کے سفارت خانے کھلے ہیں صرف پاکستان
میں سویڈش سفارت خانہ بند ہے۔ یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی ہے، سویڈن
کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات بھی ہیں جو سفارت خانہ بند سے متاثر
ہورہے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی جو سویڈن میں رہتے ہیں ، ان کے لئے بھی صورت
حال پریشان کن ہے اور وہ اپنے عزیزوں کو سویڈن نہیں بلوا سکتے۔ اس صورت حال
میں حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ کو فوری طور پر سویڈن کی حکومت اور
وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ان کے تحفظات دور کرکے سفارت خانہ کھلوانے کی
کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیرخارجہ کو سویڈش وزیر اعظم
اور وزیر خارجہ سے رابطہ کرکے اس معاملہ کو حل کروانا چاہیے۔ وزارت خارجہ
کے اعلیٰ حکام اورسویڈن میں پاکستانی سفیر کو بھی اس ضمن میں کوشش کرنی
چاہیے۔ حکومت پاکستان اگر اس ضمن میں کوشش کرے تو سفارت خانہ کھل سکتا ہے
بصورت دیگر جن طلبہ کا سویڈن کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ہوا ہے ، ان کے لئے
کوئی خصوصی طریقہ کار وضع کرنا چاہیے تاکہ انہیں سویڈن کا ویزا مل سکے اور
وہ اپنا تعلیمی سفر بغیر کسی پریشانی کے شروع کرسکیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر
کا ضرور کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں مظاہرے ضرور کریں لیکن ان میں ایسے
مطالبات اور زبان استعال نہ کریں جس کا خمیازہ پھر پاکستانیوں کو ہی بھگتنا
پڑے جیسا کہ سویڈش سفارت خانہ بند ہونے سے مسئلہ پاکستانیوں کو ہے، سویڈش
عوام کوکوئی پریشانی نہیں۔
|