پنجاب میں امن و امان کی صورت حال خراب ہی نہیں انتہائی
خراب ہے ۔ عجیب عجیب وارداتیں ہو رہی ہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔سائبر
کرائم تو ایک روٹین ہے اور انہیں روکنے کی ذمہ دار ہماری ایف آئی اے۔مگر
ایف آئی اے صرف سیاسی مقدمات کو دیکھتی اور حکومت سے اپنی وفاداری نباہ رہی
ہے۔ہر روز سینکڑوں لوگ فراڈ کرنے والوں کے ہتھے چڑھتے اور اپنی رقم گنواتے
ہیں۔ یہاں تو پولیس یا ایف آئی اے کا ایک ایسا سیل ہونا چائیے جو شکایت
وصول ہوتے ہی فوری کاروائی کرے۔مجھے ہر ہفتے ایک یا دو بار فون آتا ہے اور
کچھ لوگ کسی بہانے پیسے مانگتے ہیں ۔ ان کو انکار کرو اور کچھ کہوتو بڑی
ڈھٹائی سے گالیاں نکالتے ہوئے فون بند کر دیتے ہیں۔ مجھے کل بھی ایک ایسا
فون وصول ہوا کہ آپ کا بیٹا ہم نے گرفتار کیا ہے، اسے بچانا ہے تو بات
کریں۔ میں چونکہ اس فراڈ سے پہلے ہی واقف تھا اس لئے میں نے کہا کہ جان
چھوڑو فراڈ مت کرو۔ تو وہ لوگ پہلے ہنسے پھرگالیاں نکالنے لگے اور فون بند
ہو گیا۔ان کا فون نمبر 0325-4566856 تھا۔میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔جب ملک
میں کوئی پرسان حال ہی نہ ہو تو سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
دو دن پہلے میں ایک دکان پر کھڑا تھا ۔ اس دکان کے بالکل ساتھ فروٹ اور
سبزی کی دکان تھی۔اچانک ایک آدمی کے شور مچانے کی آواز آئی۔ وہ باقاعدہ رو
رہا تھا۔لوگ اکٹھے ہو گئے۔ میں بھی پتہ کرنے اس کے قریب پہنچ گیا۔ پتہ چلا
کہ ایک شخص نے کچھ پھل خریدا ، ایک تھیلے میں ڈالا اور وہ تھیلا اپنی
سائیکل کے ساتھ لٹکا دیا۔ ساتھ ہی سبزی والا بیٹھا تھا وہ اس سے کچھ سبزی
لینے کے بعد مڑا تو سائیکل پر پڑا تھیلا غائب تھا۔اس نے شور مچا دیا کہ
میرا تھیلا کہاں گیا۔کسی نے بتایا کہ ایک عورت جو اسی دکان پر کھڑی دکاندار
سے پھلوں کے ریٹ پوچھ رہی تھی اس نے جب اس شخص کا دھیان دوسری طرف دیکھا تو
تھیلا سائیکل سے اتارا اور ساتھ سے گزرنے والے چنگ چی رکشے پر سوار ہو کر
وہاں سے چلی گئی۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ لوگ ایسی وارداتیں مزے سے دیکھتے
ہیں لیکن کسی کو روکتے ہی نہیں۔لٹنے والا رو رو کر بتا رہا تھا کہ وہ جس
شخص کے پاس کام کرتا ہے آج اس مالک نے مجھ سے پوچھا کہ رمضان میں تم نے
اپنے بچوں کو کتنا پھل کھلایا۔ میں نے بتایا کہ پھل کی قیمتیں میری رسائی
میں نہیں اس لئے میرے بچوں نے پورے رمضان میں کوئی پھل نہیں کھایا۔چنانچہ
مالک نے مجھے خصوصی طور پر کچھ پیسے دئیے تھے کہ ان کا صرف پھل خریدنا اور
بچوں کو کھلانا ہے۔ میں نے پھل خریدا مگر کوئی پھل لے کر بھاگ گیا ہے۔میرے
بچوں کے مقدر میں آج بھی پھل نہیں۔لوگوں نے اس کی مدد بھی کی اور تسلی بھی
دی مگر وہ کتنی دیر باقاعدہ سسکیوں سے روتا رہا۔سوچتا ہوں جو پھل اٹھا کر
لے گئی اس کی کیا مجبوریاں ہوں گی جو اس نے اس قدر گھٹیا فعل انجام دیا۔
ایک نئی واردات شہر میں شروع ہے۔ میرے ایک عزیز مین روڈ فیصل ٹاؤن پر رہتے
ہیں۔ چوبیس گھنٹے اس سڑک پر خوب رونق ہوتی ہے۔ رات کو وہ سو رہے تھے کہ دو
بجے کے قریب بجلی چلی گئی۔ بجلی جانا اس ملک میں کھیل مچولی کی طرح ہے کہ
ابھی گئی اور ابھی پھر آگئی۔بجلی کب جائے گی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں
ہوتا مگر اس کے جلدآنے کی امید ہمیشہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی سحری اور افطاری
میں حکومتی اعلان کے مطابق بجلی نہیں جاتی۔ چونکہ رات دو بجے بجلی گئی تھی
اسلئے انہیں یقین تھا کہ تھوڑی دیر میں وہ بحال ہو جائے گی۔سحری کو وہ اٹھے
تو بجلی اب بھی نہیں آئی تھی۔ ارد گرد ہر گھر روشن تھا۔ گھر کا ایک فرد یہ
چیک کرنے کہ کہیں ہمارے میٹر میں کوئی خرابی تو نہیں، باہر سڑک پر آیا تو
دیکھا میٹر غائب اور اس کی جگہ ایک بڑا سا کاغذ لگا تھا۔ کاغذ کھولا تو
لکھا تھا کہ آپ کا میٹر میں نے اتار لیا ہے۔ اگر آپ کو میٹر کی ضرورت ہے
توفوراً اس فون نمبر پر مجھ سے رابطہ کریں ۔ انہوں نے اس بندے سے رابطہ کیا
تو اس نے کہا کہ میٹر آپ کو مجھ سے آکر لینا پڑے گا۔ کہاں آنا ہے میں تھوڑی
دیر میں بتاتا ہوں۔ وہ اس کے فون کے محو انتظار تھے کہ ان کے اپنے ایک
بھائی کا فون آیا کہ کسی کے پاس مت جانا۔ سوچ لیں کہ پولیس میں رپورٹ کرانا
بہتر ہے یا نہیں۔
آدھ گھنٹے بعد پھر فون آیا کہ آنے سے پہلے آپ اس فون نمبر پر پندرہ ہزار
بھجوا دیں پھر آنے کی بات کریں۔کدوستوں کا مشورہ تھا کہ پولیس میں رپورٹ کا
مطلب تھا کہ میٹر کو بھول جائیں۔ پہتر جان کرانہوں نے پندرہ ہزار بھجوا
دئیے اور اس کے پاس جانے کاسوچ رہے تھے کہ ایک عزیز نے سختی سے جانے سے منع
کیا اور بتایا کہ ڈیفنس میں کسی شخص کے ساتھ بالکل ایسی ہی واردات ہوئی تو
وہ میٹر لینے کے لئے چوروں کے پاس پہنچ گیا۔ چوروں نے اسے یرغمال بنا لیا
اور گھر والوں سے اسی کے فون پر اس کی رہائی کے بدلے دو کروڑ مانگے۔ اس کے
بیٹوں اور بھائیوں نے مشکل سے کچھ لاکھ اکٹھے کئے اور چوروں کواپنی مجبوری
ظاہر کی کہ وہ اس سے زیادہ پیسے اکٹھے نہیں کر سکتے۔ جواب میں چوروں نے کہا
کہ پیسے تیار رکھیں۔ ہم بتاتے ہیں کہاں لانے ہیں۔ تیاری کا سگنل ملنے کے
کچھ دیر بعد چور گھر کے دروازے پر تھے۔ انہوں نے پیسے لئے اور تھوڑی دور
کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ گاڑی سے مغوی برامد ہوا اور گھر کو چل دیا۔
چور پیسے لے کر اتنی دیر میں غائب ہو چکے تھے۔ ایسی کئی کہانیاں کچھ ہی دیر
میں سنی گئیں۔ فیصلہ ہوا کہ کوئی میٹر لینے نہیں جائے گا۔ انہیں میٹر یہیں
قریب ہی واپس کرنے کا کہا جائے گا۔اتنے میں میٹر چورکا فون آ گیا اور ان کی
ساری مشکل حل ہو گئی۔چور نے کہا کہ گھر کی دیوار کے ساتھ جو درخت ہے اس کے
قریب آپ کو کسی جگہ مٹی نرم نظر آئے گی اسے کھودیں، میٹر مل جائے گا۔واقعی
ہی میٹر وہاں موجود تھا، سو پندرہ ہزار میں ان کی جان چھوٹ گئی۔
سائبر کرائم کی ان بڑھتی ہوئی وارداتوں کا ہماری پولیس کے پاس کوئی علاج
نہیں۔ بہتر ہے کہ پولیس میں ان مسائل کے حل کے لئے ایک نیا علیحدہ شعبہ
بنایا جائے جہاں مستند اور متحرک ، کمپیوٹر اور سمارٹ فون سے واقف نوجوان
تعینات کئے جائیں۔ انہیں فون کمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو ۔ وہ کسی
بھی شکایت کو آن لائن یا زبانی وصول کر کے منٹوں میں فوری کاروائی کریں۔
ہماری روائیتی پولیس اس قدر سست روی سے کاروائی کا آغاز کرتی ہے کہ مجرم اس
عرصے میں ہر ثبوت ضائع کر دیتے ہیں۔ ہماری موبائل کمپنیوں کو بھی کچھ
پوچھنے کی ضرورت ہے ۔ روز ہزاروں نمبروں پر ایسی دھوکہ دہی سے سمیٹی ہوئی
رقوم کا لین دین ہوتا ہے اور بعد میں ان نمبروں کا ریکارڈ نہیں ملتا۔ کسی
جعلسازی کی صورت میں اگر موبائل کمپنی کو بھی شریک ملزم قرار دیا جائے تو
یکدم بہتری کی صورت نظر آئے گی۔ حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں فوری اقدامات
کی انتہائی ضرورت ہے۔ |