ہمارے بچپن کے سیکڑوں کھلونوں میں سے ایک کھلونا۔۔۔ اصل
نام اللہ جانے اسکا کیا تھا۔۔ مگر سب ہی اسے "بِینڈا" کہا کرتے تھے۔۔ یہ
شاید واحد پروڈکٹ تھی جس کو فروخت کرنے والے کو گلی محلے میں آوازیں نہیں
لگانا پڑتی تھیں۔۔۔ فقط اسکی "ٹرٹرانے" کی مخصوص آواز سن کر ہی ہم سمجھ
جاتے اور آٹھ آنے ، ایک روپیہ لے کر خریدنے کو بھاگ کر جاتے۔۔۔
باریک دھاگے سے بندھے اس تکون نما کھلونے پر ایسی سادہ سی مکینکی کی گئی
ہوتی کہ پہئیے چلنے سے، دونوں پہیوں سے منسلک سرکنڈہ( عرف کانہ) اور گتے کی
گراری گھومتی جو ایک تنکے کو تیزی سے اٹھانے اور گرانے کا کام سر انجام
دیتی۔۔۔ اس تنکے کے نیچے کچی مٹی سے بنا پیالہ نما، جس کی سطح پر کاغذ
منڈھا ہوتا تھا۔۔۔ اب بار بار اس پر تنکے کی ضرب پڑتی تو ٹک ٹک ٹک۔۔۔کی سمع
خراش کی سی آواز پیدا ہوتی۔۔۔
اور یہ ٹک ۔۔۔ٹک۔۔۔کی آواز صرف اسی صورت پیدا ہوتی جب اس بِینڈے کو آہستہ
آہستہ چلایا جاتا۔۔۔۔جب اسے تیزی سے چلایا جاتا تو یوں سمجھئیے جیسے مینڈک
ٹرا رہے ہوں۔۔۔۔۔۔اہل خانہ آرام کر رہے ہوں اور تین چار بچے جب بہ یک وقت
یہ بینڈے لے کر کمروں میں گھومتے تو گویا بھونچال آجاتا۔۔۔منت، ترلے، لالچ،
اور آخر میں دھمکا کر اس خوفناک کھلونے کو چلانے سے روکا جاتا۔۔۔
چونکہ سارا کھلونا خشک کی ہوئی کچی مٹی اور سرکنڈوں سے بنا ہوا ہوتا تھا اس
لئیے اس کی عمر بہرحال کم ہی ہوتی تھی۔۔۔ ایک آدھ دن میں داغ مفارقت دے
جاتا تھا۔۔۔ لیکن ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ چند دن بعد اور کوئی بیچنے آجائے
گا۔۔۔ اس لئیے بے فکری سے دوسری کھیلوں میں مصروف رہتے۔۔۔ بہت ہی شاندار
اور یادگار دن تھے وہ بھی۔۔۔
جانے کہاں کھو گئے۔۔۔۔!!!
|