گوڈ کا شکریہ، جس طرح گوڈ نے
مجھے بنایا ہے ، اس سے میں کافی خوش ہوں اور میں کچھ بھی تبدیل نہیں کرنا
چاہوں گی۔ میں اپنے کو باطنی خوبصورت خاتون مانتی ہوں۔ مجھے خاندان سے کئی
اچھے رسومات ملے ہیں ، جن پر میں اپنی زندگی میں عمل کرنا چاہوں گی“۔یہ
کلمات تھے انگولا سے تعلق رکھنے والی لیلٰی لوپس کے جنہوں نے 2011 کا مس
یونیورس مقابلہ جیت لیا ہے۔جگمگاتی روشنی کے درمیان اتراتی،اٹھلاتی اور بل
کھاتی حسیناؤں کی آمد اور اپنے جلوے بکھیرنے کے ساتھ ہی جب مس یونیورس
مقابلہ شروع ہوا تو اس میں شامل نواسی ممالک کی حسیناؤں میں سے ایک لیلٰی
لوپس کو قطعی یہ اندازہ نہ تھا کہ آج اس کے سر مس یونیورس کا تاج سجنے والا
ہے۔لیکن کہتے ہیں کہ خدا کب کس کو نواز دے اس کا وہم وگمان بھی اس کے دل
میں نہیں ہواکرتا ہے۔جیسا کہ انگولا کی لیلٰی کے ساتھ ہوا۔پچیس سالہ لیلٰی
کا تعلق انگولا کے شہر بینگوئلا سے ہے اور وہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی طالبہ
ہیں۔لیلٰی کے لئے یہ خوشی اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ وہ دنیا بھر کی ریکارڈ
89شرکاءکو شکست دے کر مس یونیورس 2011 بنی ہیں۔ جیسے ہی ججوں نے مس انگولا
کے مس یونیورس 2011 کے طور پر نام کا اعلان کیا ، وہ خوشی سے جھوم اٹھیں
اور مس یوکرین کے گلے لگ گئیں۔ مس یونیورس مقابلے کی روایت کو نبھاتے ہوئے
مس یونیورس 2010 یعنی میکسیکو کی جمینا نوارتے نے انہیں کراؤن پہنایا۔
لیلٰی لوپس جیوری کی فیوریٹ نہیں تھیں ، لیکن جوں جوں مقابلہ آگے بڑھا لوپس
کا جلوہ بڑھتا چلا گیا۔ لیلٰی لوپس کا مس یونیورس بننا محض ایک اتفاق نہیں
بلکہ اس کے لئے اس نے 14 سال کی عمر سے ہی خوبصورتی کے مقابلوں میں حصہ
لینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی ابتدا لیلٰی لوپس نے بچپن میں ہی اپنے پڑوسیوں
کے ساتھ مل کر شروع کر دی تھی۔لیلٰی محلے کی لڑکیوں کے درمیان مقابلہ کا
انعقاد کرواتی تھیں۔ دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی نگاہیں مس انگولا ٹائٹل پر
ٹکا دیں اور اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔برازیل کے شہر
ساؤ پاؤلو میں منعقدہ ساٹھویں مس یونیورس مقابلے کے فائنل کو دنیا بھر میں
تقریباً دو ارب افراد نے ٹی وی پر براہِ راست دیکھا۔اس مقابلے میں دنیا بھر
سے نواسی حسینائیں شریک ہوئیں اور حتمی مرحلے تک رسائی پانے والی حسیناؤں
میں مس انگولا کے علاوہ، مس چین، مس برازیل، مس یوکرین اور مس فلپائن بھی
شامل تھیں۔مقابلہ جیتنے کے بعد لیلٰی لوپس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں
ان کی مسکراہٹ ان کی فتح کی وجہ بنی۔انہوں نے کہا ’میں نے ہمیشہ بے حد خوش
رہنے کی کوشش کی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آج میں اپنی شخصیت کا یہ پہلو
سامنے لانے میں کامیاب رہی ہوں“۔لیلٰی لوپس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مس
یونیورس بننے کے بعد اب ان کی توجہ ان کے اپنے براعظم افریقہ اور باقی دنیا
میں ایڈز اور غربت کے خلاف جنگ پر ہوگی۔واضح ہو کہ برازیل میں منعقد اس
مقابلہ سے ہندوستانی دعویدار واسوکی سنکابلی پہلے ہی باہر ہو گئی تھیں۔
واسوکی مقابلہ کی آخری 16 شرکاءمیں بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکی تھیں۔ وہیں
یوکرین کی آلسیا اسٹیفنکو مقابلہ میں پہلی رنراپ رہیں اور برازیل کی پریسلا
میڈوکو دوسری رنر اپ رہیں۔ مقابلے کی گزشتہ سال کی فاتح میکسیکو کی جمینا
نوراتے نے لوپس کو تاج پہنایا۔ اس بار 89 ممالک کی شرکاءنے اس میں حصہ لیا
جبکہ اب سے پہلے 86 ممالک کی شرکاء ہی اس میں شامل ہوتی تھیں۔جب 25 سالہ
لیلی کو تاج پہنایا گیا اس وقت دنیا میں کئی جگہ منگل کی صبح آ چکی تھی۔اس
وقت اپنے جذباتوں پر قابو رکھتے ہوئے لوپس نے کہا ، ”میں اپنے لوگوں کی مدد
کے لئے پہلے ہی بہت کچھ کر چکی ہوں۔ میں نے بہت سے سماجی کاموں میں ہاتھ
بٹایا ہے۔ میں غریب بچوں کے ساتھ کام کرتی ہوں۔ ایچ آئی وی کے خلاف لڑائی
میں مدد کرتی ہوں۔ بزرگوں کے لئے کام کرتی ہوں اور وہ سب کرتی ہوں جس کی
میرے ملک کو ضرورت ہے۔ اب میں مس یونیورس ہوں تو مجھے امید ہے کہ میں اور
مزید کر پاؤنگی “۔اپنی خوبصورتی کے راز سے اس نے پردہ کچھ یوں اٹھایا”خوب
ساری نیند، دھوپ نہ ہو تب بھی سن اسکرین کا استعمال اور خوب سارا پانی کا
استعمال کرتی ہوں تبھی تو یہاں تک پہنچی ہوں“ |