24اپریل 2023 کی رات نماز عشاء سے کچھ دیر قبل ٹھیک 8 بج
کر 20 منٹ پر سوات کی تحصیل کبل میں واقع سی ٹی ڈی تھانہ میں پراسرار2
دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 18 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور 80 سے زائد
افراد زخمی ہوئے جن میں سے 8 کی حالت تشویشناک ہے جبکہ دو دھماکوں سے تھانہ
کی عمارت کا بیشتر حصہ زمیں بوس ہوگیا اور قریبی عمارات کو بھی شدید نقصان
پہنچا ،واقعہ میں زخمی ہونے والے افراد کو سیدوشریف اور پشاور کے ہسپتالوں
میں علاج کی غر ض سے منتقل کیا گیا ہے ، واقعہ کے بارے میں عمومی رائے یہ
ہے کہ یہ دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے جو سوات میں 16 سال قبل عسکریت
پسندی اور دہشت گردی کی لہر کے دوران پیش آنے والے واقعات سے بھی بڑھ کر ہے
جس نے علاقے کی لوگوں کو ایک بار پھر لرزا کر خوف و دہشت کے خول میں بند کر
دیا ہے ۔
واقعہ کے فوری بعد امدادی اور سکیورٹی ادارے متحرک ہوکر جائے حادثہ پہنچے ،
امدادی ادارے ریسکیو1122 اور فلاحی تنظیم الخدمت کے رضاکاروں نے فوری طورپر
جائے حادثہ سے زخمیوں اور واقعہ میں مرنے والوں کی لاشوں کو نکال کر
سیدوشریف ہسپتال منتقل کرنا شروع کردیا، واقعہ کے فوری بعد ضلعی انتظامیہ
سوات کی جانب سے ایمرجنسی ڈکلیئر کرکے لوگوں سے خون کے عطیات دینے کیلئے
ہسپتا ل پہنچنے کی ہدایت کی گئی، دوسری جانب راقم سمیت میڈیا سے وابستہ
صحافی حضرات بھی دل خراش واقعہ کی رپورٹنگ کیلئے جائے حادثہ پہنچے ۔
تھانہ سی ٹی ڈی کبل جو پولیس لائن کبل اور تھانہ کبل کی عمارات سے متصل
عمارت ہے اوریہاں سکیورٹی کے اچھے خاصے انتظامات کئے گئے ہیں ابتدائی شواہد
سے بالکل واضح نہیں ہورہا تھا کہ واقعہ دہشت گردی ہے کیونکہ عام طورپر ایسے
واقعات میں طرفین کی جانب سے بے تحاشہ فائرنگ کی جاتی ہے تو اس واقعہ میں
ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا ، خود کش دھماکہ کی صورت خود کش کے جسم
کے اعضاء ،بال بیرنگ اور کیل وغیرہ ملتے ہیں تو ایسا بھی کچھ نہیں تھا
توپھر ایسا کیا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ایسا بدترین حادثہ پیش آیا ۔ جائے
حادثہ پر پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ سکیورٹی پر مامور اداروں اور بم
ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود تھی جو صورتحال
کا جائزہ لے رہے تھے ۔ رات گئے تک شواہد اکھٹے کرنے کے بعد آر پی او ملاکنڈ
ناصر محمود ستی اور ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور نے میڈیا ٹاک کرتے
ہوئے بتایا کہ واقعہ ممکنہ طورپر غفلت کا نتیجہ ہے اور ابتدائی شواہد سے
ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ عملہ کی غفلت کے باعث سی ٹی ڈی تھانہ کبل سوات میں
موجود مختلف مواقع پر قبضہ میں لئے گئے بارودی مواد میں شارٹ سرکٹ کے باعث
آگ لگی ہے جس سے وہاں موجود راکٹ کے گولوں ،ہینڈ گرینیڈ،آئی ای ڈیز اور
دیگر بارودی مواد میں دھماکے ہوئے اور ان دھماکوں کے نتیجے میں بے تحاشہ
نقصان ہوا۔
انتظامیہ کی جانب سے پیش کردہ موقف کو عوامی سطح پر کسی صورت تسلیم نہیں
کیا جارہا ہے کیونکہ سوات میں کچھ عرصہ سے رونما ہونے والے دہشت گردی کے
واقعات اور ماضی میں کالعدم تنظیموں سے وابستہ افراد مختلف علاقوں میں
دیکھے جانے اور کئی طرح کے دیگر عوامل کی وجہ سے یہ خدشات محسوس کئے جارہے
تھے کہ سوات میں ان عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہیں اور کسی وقت
کچھ بھی ہوسکتا ہے ،چند مہینے قبل سوات میں پے درپے کچھ ایسے واقعات رونما
ہوتے رہے جس میں ڈیو ٹی پر مامور تحصیل مٹہ کے نڈر ڈی ایس پی پیر سید سمیت
سکیورٹی فورسز کے افسران کو نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا اور اس واقعہ
میں ہونے والے فائرنگ کے نتیجے میں ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس پی
پیرسید کی عمر بھر کیلئے معذوری اور پھر اغوا کرنے والوں سے پولیس کے اعلیٰ
افسران کی ہدایت پر عمائدین علاقہ کی طویل مذاکرات کے نتیجے میں ان افراد
کی رہائی ، سوات میں ان نامعلوم افراد کی جانب سے لوگوں کو بھتہ کیلئے
پرچیوں کا ملنا اور دیگر ایسے واقعات نے لوگوں کو الر ٹ کردیا تھا کہ سوات
میں کچھ ہونے والاہے ۔ عید الفطر سے کچھ دن قبل سوات کے پہاڑی علاقوں میں
رہائش پذیر گجر برادری کے لوگوں نے شکایت کی کہ انہی کے پہاڑی علاقوں میں
کچھ ایسے نامعلوم افراد رہائش اختیار کرچکے ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف
کارروائیوں کیلئے مبینہ طورپر ان سے مدد طلب کی ہے اور یہ بات سوشل میڈیا
پر کھل کر بیان کی گئی جس کے بعدسوات کے لوگوں میں تشویش کا پایا جانا بے
جا نہ تھا ایسے میں کبل کے سی ٹی ڈی تھانہ میں دودھماکوں کی صورت ایسے دل
خراش واقعہ کا پیش آنا ان خدشات کو تقویت دینے کیلئے کافی تھا کہ سوات میں
دہشت گرد ایک بار پھر آگئے ہیں اور وہ ریاست مخالف سرگرمیوں میںملوث ہورہے
ہیں ،کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ایسے میں
پیش آنے والے بدترین واقعہ نے لوگوں کوایک با ر پھر سے وحشت زدہ کردیا کہ
جب پولیس کے اتنے محفوظ حصار میں موجود جس کے چاروں طرف سکیورٹی کے بہترین
انتظامات موجود ہیں عسکریت پسند داخل ہوکر کارروائی کرسکتے ہیں تو پھر سوات
کا تو ایک بار پھر اللہ حافظ!
جو نقصانات ہوئے ہیں اور جسے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انسان کے رونگٹھے کھڑے
ہوجاتے ہیں کے بارے میں آر پی او ملاکنڈ اور ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ
یہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ عملے کی غفلت کا نتیجہ ہے اس حوالے سے اگرچہ کئی
طرح کی وضاحتیں بھی پیش کی جارہی ہیں لیکن اصل حقائق تو مکمل تفتیش کے بعد
ہی سامنے آئیں گے ، وقوعہ کے اگلے روز اعلیٰ حکام آئی جی خیبر پختونخوا
اختر حیات خا ن ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی سہیل خالد،چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا
ندیم اسلم چوہدری اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام جائے حادثہ پہنچے
اور حالات کا جائزہ لیا اور حتمی رپورٹ کا آنا ابھی باقی ہے۔
وقوعہ کے بعد تمام شہداء کا اجتماعی جنازہ پولیس لائن کبل میں ادا کیا گیا
جس میں پولیس ، سکیورٹی حکام اورسیاسی وسماجی عمائدین نے کثیر تعداد میں
شرکت اور بعد میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان شہداء کے جسد خاکی
تدفین کیلئے متعلقہ علاقوں کیلئے روانہ کردئے گئے جہاں انہیں اپنے پیاروں
کی اشک بارآنکھوں کے سامنے سپر د خاک کیا گیا جبکہ بیشتر زخمی اب بھی مختلف
ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔
واقعہ کیسے پیش آیا! دہشت گردی ہے یا غفلت ،یہ سوال ابھی تشنہ ہے جس کیلئے
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی گئی ہے آئی جی اختر حیات خان بھی اس تحریر کے
قلم بند کرنے تک دو سری مرتبہ سوات کا دورہ کرچکے ہیں اور حالات کا باریک
بینی سے جائزہ لے رہے ہیں لیکن جو سوال ہے اور جس کا حتمی نتیجہ سننے کیلئے
سوات کے عوا م بے تاب ہیں وہ یہ ہے کہ !
اگر یہ واقعہ سی ٹی ڈی حکام کے غفلت کا نتیجہ ہے جیسا کہ بتایا جارہا ہے تو
اس سے کیا سبق اخذ کیا جائے گا کیونکہ اس واقعہ میں انچارج سی ٹی ڈی بھی
جاں بحق ہوچکے ہیں اور ایک اعلیٰ ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعہ سے تین دن قبل
بھی اسے یہ بارود یہاں سے ہٹانے یا ٹھکانے لگانے کا کہا گیا تھا جس پر عمل
نہ کیا جاسکا لیکن جو اصل سوال ہے وہ یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں اتنے غیر
محفوظ طریقے سے بارود کا رکھنا کس مقصد کیلئے تھا ، کیا ہمارے پاس ماضی میں
10 اپریل 1988 میں اُوجڑی کیمپ کی صورت ایک بدترین تجربہ پہلے سے موجود
نہیں تھا ؟ جس میں بارود کی بہت بڑی مقدار پھٹنے سے پاکستانی تاریخ کا
بدترین حادثہ رونما ہوا جس میں اسی طرح کے مختلف بارودی مواد پھٹنے سے
انسانی اعضاءہوا میں اُڑتے رہے ، بہر کیف حقائق جو بھی ہیں دہشت گردی ہے یا
مبینہ غفلت اس کا تعین فوری طورپر ہونا چاہئے تاکہ لوگوں میں پائے جانے
والے خدشات ختم ہوں اور اگر واقعی غفلت ہے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی
اور مستقبل میں اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ پھر سے اُوجڑی
کیمپ کی تاریخ نہ دُہرائی جاسکے۔
|