ہیپی لیبرز ڈے

از قلم حناء ارشاد

لیبر ڈے اگر اس لفظ کو ہم آسانی کے ساتھ ادا کرتے ہوئے اسکا مطلب بالکل واضح کریں تو لیبر ڈے دیہاڑی داروں کا دن ہے۔

آج کے اس مہنگائی کے دور میں دیہاڑی داروں کی طرزِ زندگی گزارنا آسان تو بالکل بھی نہیں ہے؟
اک گھر کا کفیل کہلوانا جتنا آسان ہے' اس لفظ کو نبھانا نہایت مشکل امر ہے۔

مرد باپ' بیٹا' بھائی نیز ہر روپ میں بے مثل ہے۔

ارے بھئی! مرد ہی کیوں بے مثل ہے؟ بھئی بے مثل تو عورت بھی ہے۔ جو اپنا ہر لمحہ ایمانداری سے اپنی گھرداری میں صرف کرتی ہے۔ جو پورا دن اور رات مشقت کی چکی میں پیستی ہے اور اپنا دن' رات ایک کرکے خود آگ کی بھٹی میں جل کر کندھن سے سونا نکالتی ہے۔ وہ سونا بیشک اک مرد ہی ہے۔ بیشک اک عورت صرف ایک مرد ہی کی بدولت' چاردیواری میں پرسکون زندگی گزارنے کے ساتھ' اس معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتی ہے۔ مرد کا ہر روپ نرالا ہے۔

بیشک اک عورت ہی مرد میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرتی ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کا اثاثہ حیات یعنی رہبر و رہنما ہے۔ وہ احساسِ ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اپنی ہر اکڑ و انا کو اپنے گھر کی دہلیز پہ چھوڑ جاتا ہے۔ وہ ہر گرم و سرد سہہ کر بھی اف نہیں کرتا۔

ہاں میرا قلم آج ان دیہاڑی داروں کو سلام پیش کرتا ہے جو ایک ماہ کی بچت کے بعد بھی اپنا پسندیدہ کھانا خرید کر بھی اپنی بیوی و بیٹی کے لیے اعلان کرتا ہے کہ اسے تو دال روٹی ہی ہر حال میں پسند ہے' وہ باہر کا تکہ' روسٹ نہیں کھا سکتا کیونکہ اسکا معدہ اب اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

میرا دل ان دیہاڑی داروں کی عظمت کو سلام کرتا ہے جو دن بھر کی مشقت کے بعد بھی چھالے والے ہاتھ اور پاؤں ہونے کے باوجود کرائے کی سواری لینے/ کروانے کی بجائے' پیدل چل کر ' کوئی موسمی پھل' یا مونگ پھلی خرید کر' گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے' ہر مشقت و فکر اپنی ماں' بہن' و بیٹی کے لیے باہر چھوڑ آتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں اکٹھی کر کے قہقہے لگانے کے ساتھ' بھوکے پیٹ ہونے کے باوجود اپنا لایا موسمی پھل یا مونگ پھلی بھی یہ کہتے ہوئے کھانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ بھئی یہ تو میں نے آپ سب کے لیے بعد میں خریدا ہے۔ میں تو وہاں بیٹھ کر اپنی طلب سے کھا کر آیا ہوں۔
آج کے دن تو سلام کرنا تو ان نوجوانوں کو بھی بنتا ہے۔ جو فکرِ معاش کی خاطر اپنے خاندان سے کئی برس علیحدہ رہتے ہوئے' صرف ایک اے ٹی ایم مشین کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور تو اور کچھ نوجوان تو اپنی شادی کے بعد' اپنی شریکِ حیات کو ہی نہیں' اپنے خاندان کے سپرد چھوڑ جاتے ہیں بلکہ وہ تو بہتری کی فکر میں اپنی آنے والی آئندہ نسلوں سے ملنے والے خوبصورت لمحات بھی ہنس کر کھو دیتے ہیں۔ جس کے بعد بھی کچھ لوگوں کو سننے میں ملتا ہے کہ آخر انہوں نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟ یقیناً یہ سب محسوس کرنے کے لیے تو انہیں بھی یہی سب برداشت کرنا ہوگا۔ جو کہ ان کے سرپرست چاہ کر بھی برداشت نہیں کرواسکتے۔

حتیٰ کہ اگر وہ اپنی اولاد کو اپنی حیثیت کا تعین کروانا چاہیں تو ان کے نام کے آگے سے اپنا نام مٹا کر بھی بتا اور دیکھا سکتے ہیں کہ آخر انکی حیثیت کیا ہے؟ ان کا اک چھوٹا سا نام جوکہ چند حروف سے مل کر ایک لفظ بنتا ہے' اس ظالم معاشرے میں سر اٹھا کر سروائیو کرنے کے لیے' کتنا لازم ہے۔

آجکا میرا لکھا ہر لفظ و حرف' ان سپروائزروں اور آفیسرز کے نام' جو گھر سے سوٹڈ بوٹڈ ہو کر ملازموں کی فوج کے ساتھ اپنے آفیسرز سے ملنے جاتے ہیں تو انہیں انکی چھوٹی سی غلطی پہ بنا عمر کے لحاظ سے سخت و برہم لہجے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ان سے ملوث تمام رشتے یہی سوچ رکھتے ہیں کہ وہ تو پوری دنیا کو اپنی جیب میں لے کر گھومتے ہیں ۔ ہائے ! انکی یہ خوش فہمیاں یا پھر غلط فہمیاں ؟

 

Shahida Siddique
About the Author: Shahida Siddique Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.