دادو!دادو! یہ دیکھیں،میں نے اس دفعہ عید پر پہننے کے لیے
تین سوٹ سلوائے ہیں،اور ان کے ساتھ الگ الگ گھڑیاں اور جوتے بھی لیے ہیں۔جب
میں عید کے تینوں دن الگ الگ کپڑے اور جوتے پہنوں گا تو میرے سارے دوست
حیران ہو جائیں گے۔حاشر نے بہت جوش سے دادی کو بتایا۔دادو! میں نے بھی اس
دفعہ دو سوٹ لیے ہیں مہنگے والے،اور ساتھ ہی میچنگ جیولری بھی۔فاریحہ کیوں
پیچھے رہتی۔وہ بھی دادی کوعید کی شاپنگ کے بارے میں بتانے لگی۔
عید الفطر کا چاند نظر آچکا تھا۔گھر میں گہما گہمی تھی۔حلیمہ بیگم کچن میں
عید کے لیے پکوان تیار کر رہی تھیں ،جبکہ دونوں بچے حاشر اور فاریحہ دادی
کے پاس بیٹھے خوشی خوشی ان کو عید کی شاپنگ دکھا رہے تھے اور عید کی پلاننگ
سے آگاہ کر رہے تھے۔باتوں کے دوران دادی نے اچانک پوچھا ـ’’ حاشر ،فاریحہ!
کیا تم دونوں نے اس دفعہ قربانی نہیں کرنی؟‘‘ ہائیں !قربانی! لیکن وہ تو
بڑی عید پر ہوتی ہے ناں، دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر حیرت سے
بولے۔چھوٹی عید تو صرف عیدی جمع کرنے اور کھانے پینے کے لیے ہوتی ہے۔دونوں
جوش سے بولے۔
لیکن بیٹا! آپ لو گ تو اس عید پر بھی قربانی کر سکتے ہو۔وہ کیسے دادو! حاشر
جلدی سے بولا۔اور ہمارے پاس تو ابھی کوئی جانور بھی نہیں ہے جس کو ذبح
کریں، فاریحہ نے مایوسی سے کہا۔بیٹا! قربانی صرف جانوروں کے ذبح کرنے کا
نام نہیں ہے،بلکہ اپنی من پسند چیز اﷲ کی راہ میں دینا کا نا م بھی قربانی
ہے۔میں سمجھا نہیں دادی جان!! حاشر بولا۔اب دیکھو! آپ نے اور فاریحہ نے محض
دوستوں کو دکھانے کے لیے ایک سے زائد کپڑے اور جوتے لیے ہیں ان میں سے ایک
کسی غریب کو دیدو۔اس طرح آپ فضول خرچی سے بھی بچ جاؤ گے ،غریب کی مدد بھی
ہو جائے گی ،اور اپنی من پسند چیز کو اﷲ کی راہ میں دینے کا اجر بھی مل
جائے گا۔دادی نے بہت پیار سے دونوں کو سمجھا یا۔ارے واہ! یہ تو ہم نے
سوچاہی نہیں۔ان شاء اﷲ ہم ایسا ہی کریں گے۔اور چھوٹی عید پر بڑی قربانی
کرکے دکھائیں گے۔دونوں یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے،اور دادی نے اﷲ
کا شکر ادا کیا کہ ان کی بات بچوں کی سمجھ میں آگئی۔۔۔ |