بدگمانی کا لفظ آپ نے سنا ہوگا ۔
اس کے معنی ہیں اندازہ کی بنیاد پر کسی کے بارہ میں کوئی منفی رائے قائم
کرنا۔ قرآنِ مجید نے واضح لفظوں میں اپنے پیروکاروں کو اس برائی سے بچنے کی
تلقین فرمائی ہے ۔ آج یہی برائی اپنی پوری زہرناکی کے ساتھ ہمارے معاشرے
میں سرایت کرچکی ہے اور ایک عفریت بن کر ہماری مختلف اسلامی اور روحانی
اقدار کا خون چوستی جارہی ہے ۔ کباڑیوں کے ترازو میں ڈنڈی مارنے ‘ رکشہ اور
ٹیکسی والوں کے کسی نووارد کو دیکھ کر بہت زیادہ کرایہ مانگنے اور لمبا چکر
کاٹ کر منزل پر پہنچانے ‘ کسی ضرورت مند راہ گیر کو لفٹ طلب کرتے دیکھ کر
فوراً سے بھی پہلے ‘ اسے ٹھگ ‘ جیب کترا اور ڈاکو ڈکلیئرکردینے ‘ میلے
کچیلے کپڑوں والے کسی نئے نمازی کومسجد میں دیکھ کر اسے ”جوتا چور“ فرض
کرنے ‘ لمبی گاڑی والوں کو بے حس ‘ ناخداترس اور حرام خور سمجھنے ‘ ہر
بھکاری کو ”عادی “ قرار دینے اور اس کی زبان سے اداہونے والے لجاجت آمیز
الفاظ کو ”پیشہ وارانہ اداکاری “ پر محمول کرنے کی باتیں آج ہمارے معاشرہ
میں کتنی عام ہیں۔ معمولی برائیوں کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنا اور ہروقت انہی
کا ذکر عام کرتے رہنے کا مشغلہ ‘ہمارے معاشرے سے محبت ‘ ایثار اور ہم دردی
جیسے کئی ان مول خصائل کا خاموش خون کرتا جارہا ہے ۔
ایسا نہیں کہ ہمارے سارے بازار بے ایمانی پر چل رہے ہوں‘ اس ”ماں دھرتی “
نے ایمان دار اور دیانت دار فرزند جنم دینا چھوڑ دیے ہوں ‘ مادیت کی دوڑ نے
اِ س قوم کو اندھا ‘ بہرا اور اخلاقی طورپر بانجھ بنا دیا ہو۔ ایسی کوئی
بات نہیں۔خیر اورشر ابتدائے آفرینش سے ایک ساتھ چلے آرہے ہیں ۔ ابلیس اور
اس کی آل واولاد نے آدم زاد سے دشمنی کی قسم آج نہیں اٹھائی ۔ مختلف حیلوں
اور حربوں سے ‘بہلا پھسلاکر دوسروں کو لوٹنے کے نت نئے انداز پتھر کے دور
سے چلے آرہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ انسان کو ہر معاملہ میں چوکنے پن اور
بیدارمغزی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ‘ لیکن وہم کی حدتک بڑھی ہوئی ”احتیاط“ اور
بدگمانی بھی ناپسندیدہ چیز ہے اور انسان کی عزت ووقار میں کمی کا باعث بنتی
ہے ۔ نہ کسی کو قرض دیا جائے ‘ نہ کسی سے امانت لی جائے ‘ نہ گلی میں کسی
کے رونے کی آواز سن کر دروازہ کھولا جائے ‘ نہ کسی سائل کی اشک شوئی کی
جائے ‘ نہ کسی انجان کو ”لفٹ دی جائے ۔ یہ احتیاط کی نہیں ‘ بدگمانی کی
مثالیں ہیں۔ ان رویوں کو عام کرنے میں اس روشن خیال اور ترقی پسند میڈیا کا
بھی بہت ہاتھ ہے جس پربرائیوں کی اصلاح اور ان کے خاتمہ کی بجائے ‘ ان کی
تشہیر کا بھوت سوار ہے ۔
اپنے علاوہ ساری دنیا کو چالاک ‘ شاطر اور مکار سمجھنا بھی بدگمانی کی ایک
صورت ہے ۔ آج ہم کسی ریڑھی والے سے پھل یا سبزی خرید کرتے ہوئے ‘ کسی رکشہ
یا گدھا گاڑی والے سے کرایہ طے کرتے ہوئے یاکسی دیہاڑی دار مزدور سے کام
کراتے ہوئے یہ تو بڑی باریک بینی سے دیکھتے رہتے ہیں جو ہمارا حق ہے کہ
کہیں ہمارے ساتھ کوئی ہیر پھیر تو نہیں ہورہا اور ایک دو روپے کی رعایت پر
اتنازور دیتے ہیں کہ گویا وہ غریب بڑی چالاکی کے ساتھ لوگوں کی جیبیں کاٹ
رہا ہو‘ لیکن کیا کبھی یہ بھی سوچا کہ وہ غریب جس نے اپنی ”دیہاڑی “ بچانے
کے لیے آپ کو دوچار روپے کی رعایت کر دی ‘ کہیں اس نے اپنے چاقو سے اپنا
ہاتھ تو نہیں کاٹ ڈالا۔ انہیں بہت زیادہ چالاک نہ سمجھیں ‘ وہ بھی آپ ہی کی
طرح کے انسان ہیںجو دھوکا بھی کھاتے ہیں اور نقصان بھی کرجاتے ہیں۔ ایک ایک
پائی کا حساب کرنے والے بڑے بڑے صنعت کار ‘ بزنس مین اور لینڈلارڈ ‘
غریب‘مفلس اور لاچار طبقہ کی سادگی ‘ بھول پن اور مجبوریوں کا اندازہ کرہی
نہیں سکتے ۔ چند دن پہلے اپنے گھر کے قریب ‘ ایک ریڑھی والے سے تربوز خرید
نے کا اتفاق ہوا ‘ اس نے جو مانگا‘ بے خیالی میں بغیر حساب کیے اسے دے دیا۔
قریباً دوگھنٹہ بعد وہ واپس آیا اور گھر والوں کو بتایا کہ میں ڈیڑھ سوروپے
بھول کر کم لے گیا تھا‘ جب ہم نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی غلطی ہوئی
تھی۔اندازہ کیجئے کہ یہ بھولے بھالے لوگ شام کو گھر میں کیا بچاکر لے جاتے
ہوں گے ؟ہمارا گھر تو اس نے دیکھا ہواتھا ورنہ کوئی دوسرا ہوتا تو اسے کہاں
ڈھونڈتا پھرتا؟اس سے پہلے ایک رنگ ساز مجھے ملا اور کافی عرصہ سے روزگار نہ
ملنے کا شکوہ کیا ۔ میں نے ذرا وضاحت سے اس کوسمجھایا کہ تم صرف اپنے اس
ہنر پر انحصار کرنے کی بجائے کوئی چھابڑی یا ریڑھی لگالو ۔ قسم بخدا‘ میرا
آئیڈیا سن کر اس کے چہرے پرمسرت کے لعل ایسے چمکنے لگے جیسے پہلے کبھی اس
کے ذہن میں یہ آسان سا راستہ آیاہی نہیں‘ ورنہ وہ کب سے اپنے سارے غم دور
کرچکا ہوتا۔کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دیہاڑی دار مزدور کسی چھوٹے موٹے کام
کا ٹھیکہ لے لیتے ہیں ‘مگر اس میں نقصان کربیٹھتے ہیں خصوصاً چونا گچ
پھیرنے والے عام رنگ ساز تو 10000 کا کام بڑی آسانی سے 8000 میں لے لیتے
ہیں کیونکہ ان بے چاروں کو روزگار بہت مشکل سے ملتا ہے۔ہمارے ہاں ایسے
مجبور ‘ بے بس اور قابلِ رحم طبقہ کے ساتھ بھی ہمدردی کی بجائے ‘بدگمانی کا
رویہ برتا جاتا ہے او ران پربددیانتی کا الزام دھرنے کے مواقع تلاش کیے
جاتے ہیں۔
گدھاگاڑی والوں کی دیانت کا اندازہ آپ اس بات سے کیجئے کہ ایک جگہ سے سامان
ان کے حوالہ کیا جاتا ہے اور بغیر کسی فکر کے وہ سارا کا سارا سامان دوسری
جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ اگر یہ لوگ چاہیں تو روزانہ لاکھوں کے گھپلے کرسکتے
ہیں‘مگر ایسانہیں ہوتا۔ آپ رکشہ والوں کو لیجئے ‘کئی مرتبہ خود میرے ساتھ
ایسا ہوا کہ بھول کر پانچ دس روپے ‘ نوٹوں میں دب کر زیادہ چلے گئے تو اس
نے متوجہ کرکے واپس کیے ۔ مگر ان لوگوں کی دیانت وامانت کا کوئی قصہ کبھی
سنا آپ نے ؟قانونی گرفت کے بغیر ‘ اس خود کار دیانت کا اگر سوواں حصہ بھی
لندن یا پیرس کے معززین میں ہوتا تو اس کے قصے ہم ڈاکٹر جاوید چوہدری
اورمحترم حسن نثار کی تحریروں میں پڑھتے ۔
آخر میں ایک غریب کباڑیے کا قصہ بھی سنتے جائیے جس کے پاس ترازو بھی ٹوٹا
ہوا تھا۔ وہ مجھ سے قریبا 2500 کا پرانا لوہا خرید کرکے لے گیا۔ میں نے
اپنے حساب سے اس سے پوری قیمت وصول کرلی تھی‘ مگر دودن کے بعد وہ دوبارہ
مجھے ملنے کے لیے آیا۔ اب وہ ریڑ ھی کے بغیرتھا ۔ شیطان نے وسوسہ اندازی کی
کہ شاید اب یہ کسی امداد کے لیے آیا ہے یا یہ بتلانے کے لیے کہ اس دن میرا
نقصان ہوگیا۔ میں نے جب مصافحہ کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو دل اور
دماغ میں بدگمانی کے جھکڑ چل رہے تھے ۔ مصافحہ کرتے ہی اس نے جلدی جلدی
بتانا شروع کیا کہ ” سائیں‘ اس دن میں نے گھر جاکر حساب کیا تو معلوم ہواکہ
میں غلطی سے آپ کو پانچ سو روپے کم دے گیا تھا۔ “میں نے اسے سمجھانے کی
ہزار کوشش کی کہ میں اپنے حساب سے پورے لے چکا ہوں۔ مگر اس نے بہ اصرار وہ
پانچ سوروپے میرے ہاتھ میں تھمائے اور مجھے حیرت اور ندامت کے سمندر میں
اکیلا چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ اخلاق ‘ کردار اور ضمیر کے یہ روشن چراغ ہمارے
آس پاس موجود ہیں ۔ ان کو کسی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں ‘ مگر ان سے
آنکھیں موند لینا اور ہمہ وقت معاشرے کے خراب اور بدکردار لوگوں کے تذکرہ
میں مشغول رہنا‘ ہمیں بدگمانی ‘ بداعتمادی اور شک وشبہ کی اس تاریک کھائی
کی طرف لے کر جارہا ہے جو حقیقتا ً اخلاق واقدار کی ”جنازہ گاہ “ ہے ۔ |