قاتل درخت

آٹھ دس سپاہیوں نے مجرم کوزنجیروں میں جکڑ رکھاتھا اوراسے کھینچتے ہوئے قتل گاہ کی طرف لے جارہے تھے۔مجرم نیم بے ہوش تھا۔موت کے خوف سے اس کا چہرہ زردہورہاتھا۔بارباراس کاسرایک طرف کوڈھلک جاتا۔پھانسی گھاٹ کے قریب پہنچ کر اس نے ایک نظر سیاہ رنگ کی لکڑی کے پھاٹک پر ڈالی۔ ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی اوروہ بے ہوش ہوگیا……دوتین سپاہیوں نے اسے اٹھالیا اورمنزل مقصود کی طرف چل دیے۔

مجرم کی آنکھ کھلی تووہ ایک میدان میں گیلی زمین پرلیٹاتھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔اچانک اس کی نظربانس کے ایک ننھے سے پودے پر جا پڑی جونرم اوربھربھری زمین سے سرنکالے کھڑاتھا۔خوف کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑگئی اوروہ تقریباً روتے ہوئے بولا:

”خداکے لیے مجھے یہاں سے لے چلو۔مجھے پھانسی پرلٹکادو،لیکن یہ سزامیں برداشت نہیں کر سکتا“۔
وہ زورزورسے چلاتارہا……لیکن کسی نے اس کی آہ وفغاں کی طرف توجہ نہ دی……زمین کے اس نرم حصے کے گرد جس میں بانس کاوہ ننھاساپوداسرنکالے کھڑا تھا ……لکڑیاں گاڑدی گئیں ……اب مجرم کی قمیص اتارکر اسے زمین پر اس طرح اوندھالٹادیاگیاکہ بانس کی وہ ننھی سی سوئی اس کی ناف سے مس ہونے لگی……اس کے جسم کولکڑیوں سے اچھی طرح کس دیاگیا……اب وہ اپنی جگہ سے ایک انچ برابربھی حرکت نہیں کرسکتاتھا……سپاہی واپس چلے گئے……تومجرم نے اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی بے حدکوشش کی ……لیکن بے سود۔

آہستہ آہستہ بانس کی وہ ننھی سی سوئی اس کی ناف میں گھسنے لگی……دردکی شدت سے وہ بے حال ہوگیا……آہستہ آہستہ بانس کا پودابڑھ رہاتھا اور اس کے پیٹ میں گھستا چلاجا رہاتھا……مرنے سے پہلے اسے کم وبیش دوگھنٹے کی جان لیواتکلیف برداشت کرنی پڑی …… صبح جب سپاہی میدان میں داخل ہوئے، تواس کی لاش اکڑچکی تھی ……اس کی آنکھیں ابل کر باہر آگئی تھیں اوربانس کی تیزنوک پیٹ کو چیرتی ہوئی دوسر ی طرف نکل آئی تھی۔

چین کے دورِشہنشاہت میں نہایت سنگین جرم کرنے والوں کواسی طریقے سے قتل کیا جاتاتھا۔بانس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کاننھا سا پوداایک رات میں کئی انچ تک بڑھ جاتاہے۔تقسیمِ ہندسے پہلے شمالی ہندوستان کے ایک مغرورہندو جاگیردار نے ایک بے گناہ مزارع کاخون کردیا۔مقدمہ چلا، لیکن قاتل اپنے ذاتی اثرورسوخ کی وجہ سے بری ہو گیا۔متقول کاجرم صرف یہ تھاکہ اس نے قاتل کی ایک بات نہیں مانی تھی۔اب توقاتل کی دور دورتک دھاک بیٹھ گئی۔اس علاقے کے تمام کاشت کاراس سے تنگ آگئے۔وہ بات بات پر انہیں قتل کی دھمکیاں دیتاتھا۔
ایک مرتبہ وہ کسی مقدس مقام کی زیارت کے لیے گیا،واپسی پر راستے میں ایک رات بسرکرناپڑی۔شام کواس نے ڈٹ کرشراب پی لی تھی اورپھر کھلی جگہ چارپائی بچھاکرسوگیا۔ رات کواس کی پشت کے نیچے سے بانس کے کسی پودے نے سرنکالااورصبح تک اس کے جسم سے آر پارہوگیا۔ نشے کی وجہ سے اسے پتا نہ چلااوروہ اپنے انجام کوپہنچ گیا۔

بانس جاپان،چین،انڈونیشیا،برما، ہندچینی،جزائرمڈغاسکر،غرب الہند،جنوبی امریکہ اوربنگلہ دیش میں پایاجاتاہے۔پاکستان میں بھی اس کی کاشت ہوتی ہے۔ یورپ میں بانس باغیچوں کی آرائش سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔کیونکہ آب وہوااس کے لیے موزوں نہیں تھی۔ اب تک اس کی ایک سوبیس کے قریب قسمیں دریافت کی گئی ہیں۔جن میں مولی،دولو، متنگا،اورا،کالی سریا،اورباجالی سب سے عمدہ سمجھی جاتی ہیں۔ جنک،اورا،اورباجالی اندرسے ٹھوس ہوتی ہیں۔ ان کی اقسام سے زیادہ ترسیڑھیاں اوربلیاں بنتی ہیں۔ ان کے علاوہ ان سے مچھلی پکڑنے کی بنسیاں اوربانسریاں بھی تیارکی جاتی ہیں۔

بانس کی سب سے لمبی قسم جنوبی امریکا میں پائی جاتی ہے جوکم وبیش دوسوفٹ لمبی ہوتی ہے۔ یہ بہت پتلی ہوتی ہے اوراس کا قطر ڈیڑھ انچ سے زیادہ نہیں ہوتا۔بانس کی سب سے چھوٹی قسم نرکل یاکلک ہے۔یہ ندی نالوں کے قریب اگتی ہے۔اس کی قلم سے بچے تختی لکھتے ہیں۔باریک اورپتلی ہونے کی وجہ سے اس کی بنسیاں اوربانسریاں بنتی ہیں۔ ہندوستان میں مرزاپورکے علاقے میں ایک خاص قسم کابانس پایا جاتا ہے۔یہ بے حدوزنی اورٹھوس ہوتاہے۔ وزنی ہونے کی وجہ سے یہ فوراًپانی میں ڈوب جاتاہے۔اودھ کے رئیس اورلٹھ باز یہ بانس خاص طورپرمنگواتے تھے۔گرہیں چھیل کر اسے سڈول بنالیاجاتا،پھراسے تیل پلادیاجاتا تاکہ یہ وزنی ہوجائے۔

بانس کے پودے کے اوپرمختلف جگہوں پرگرہیں ہوتی ہیں۔یہ بانس کے اندرمختلف خانوں کوایک دوسرے سے جداکرتی ہیں۔ بانس کاپودا جب ایک ماہ کاہوجاتاہے توگرمیوں میں ان پرپتیاں نکل آتی ہیں۔یہ پتیاں بڑھتے بڑھتے کئی فٹ لمبی ہوجاتی ہیں۔ایک جڑسے بیک وقت دس سے لے کر بارہ تک بانس نکلتے ہیں۔ان میں سے ہرایک کی پتیاں مل کر ایک گھنی چھتری کی شکل اختیارکرلیتی ہیں۔موسم گرمامیں یہ چھتریاں پرندوں اورچھوٹے چھوٹے جانوروں کے لیے سایہ دارآرام گاہ کاکام دیتی ہیں۔

بانس کاپودا پچاس سے سوسال تک بڑھتارہتاہے۔ اس دوران میں کسی وقت بھی اس پرپھول آسکتے ہیں۔یہ پھول چندروزتک رہتے ہیں،پھرسوکھ جاتے ہیں اوران کی جگہ بانس کاپھل نمودارہوتاہے،اس کی شکل آک کے پھل سے مشابہہ ہوتی ہے۔اس کے سوکھنے پرلاتعداد بیج زمین پرگرپڑتے ہیں۔اس کا بیج چوہوں کی مرغوب غذا ہوتاہے۔ اس لیے جونہی زمین پرگرتاہے،اردگردسے سینکڑوں کی تعدادمیں چوہے اسے کھانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں اورکسانوں کے لیے مصیبت کاباعث بنتے ہیں۔کیونکہ واپسی پریہ دوسرے کھیت بھی اجاڑ دیتے ہیں اورننھے ننھے پودوں کی جڑیں کاٹ دیتے ہیں۔

عام طورپرسوکھابانس استعمال کیاجاتاہے۔کچے بانس کوچندروزتک دھوپ میں رکھ چھوڑیں تووہ سوکھ کرسخت ہوجاتاہے۔اگرہم کسی سوکھے بانس کو کاٹ کردیکھیں توہمیں اس کے اندرموٹے موٹے ریشے نظرآئیں گے۔آج سے تقریباًدوہزارسال قبل چینیوں نے پہلے پہل اسی ریشے سے کاغذ بنایا تھا۔ رفتہ رفتہ اس صنعت میں گھاس پھونس کااستعمال بھی ہونے لگا۔ تاہم آج کل بھی عمدہ اورمضبوط قسم کا کاغذ بانس ہی سے تیارکیاجاتاہے۔پاکستان میں بھی بانس سے کاغذتیارکیاجاتاہے۔

”نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری“یہ محاورہ سبھی نے سناہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بانس نہ رہے توبانسری کیا،خط استوامیں بسنے والے بہت سے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہوجائیں گے۔بنگال کے بعض خاندان بانس پررہتے ہیں ……بانس سے روزی کماتے ہیں ……بانس کھاتے ہیں اور بانس ہی ایندھن کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ بڑے بڑے دریاؤں میں بانس کے بیوپاری انہیں بیڑے کی شکل میں باندھ لیتے ہیں۔بعض اوقات یہ بیڑے اس قدروسیع وعریض ہوجاتے ہیں کہ ان پرکرکٹ بھی کھیلی جاسکتی ہے۔ان کے مکانات بھی بانس سے تیارکیے جاتے ہیں۔یہ مکانات بارش، آندھی اورسیلاب میں بے حدمفید ہوتے ہیں۔یہ اگرگربھی جائیں توبھی جانی یامالی نقصان نہیں ہوتا۔
چینی کسان بارش اوردھوپ سے بچنے کے لیے بانس سے بنی ہوئی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ بانس کی دیگر مصنوعات میں چپل، ٹوکریاں،چٹائیاں،گلدان، ٹوپیاں،چھڑیاں اور ایش ٹرے شامل ہیں۔ ماہرینِ نباتات نے بانس کودنیاکے تمام پودوں سے زیادہ کار آمد قرار دیاہے۔زمانہ قدیم میں یہ جنگلی ہتھیارکے طور پر بھی استعمال ہوتاتھا۔بانس کو بیچ سے چیرکر اس کی کمانیں بنائی جاتی تھیں۔بانس کے سرے کونوک داربناکرنیزہ بنایاجاتھا۔موجودہ دورمیں بارودی سرنگیں دشمن کے لشکر کوروکنے کے لیے بچھائی جاتی ہیں۔بارودکی ایجادسے قبل استوائی خطے کے باشندے بانس کے کانٹے راستے میں بودیتے تھے۔اس طرح دشمن کے سپاہیوں کے لیے اس راستے سے گزرنامشکل ہوجاتاتھا۔

بانس کے تنے سے بہت سے کیمیائی اجزانکالے جاتے ہیں۔ان میں ایکسائیل اورگلیسرانک ایسڈقابلِ ذکرہیں۔بانس کی سوکھی پتیاں مچھلیوں کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں۔یہ مچھلیوں کی بدبودورکردیتی ہیں۔بانس کی کونپلیں مویشیوں کے چارے کے طورپراستعمال کی جاتی ہیں چین میں اسے کئی طرح سے پکا کرکھایاجاتاہے۔خاص طورچربی میں بھونی ہوئی بانس کی کونپلیں ذائقے میں اپناجواب نہیں رکھتیں۔

Adeel EllahAbadi
About the Author: Adeel EllahAbadi Read More Articles by Adeel EllahAbadi: 6 Articles with 6701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.