اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات انسان کے لئے دُنیا
میں بے شمار اور لاتعداد نعمتیں پیدا کی ہیں۔اگر انسان ان کو شمار کرنا
چاہے تواحاطہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں اور اگر اس کی تمام نعمتوں میں سے
اپنی زندگی گزارنے کے لئے ناگزیر نعمتوں کا چناؤترجیحی بنیادوں پر کرے تو
روٹی،کپڑا اور مکان اس کے لئے بے حد ضروری ہیں اور اس کی تاکید آئین
پاکستان میں بھی موجود ہے۔ان نعمتوں کا حصول اور زندگی گزارنے کے لئے ان کی
ضرورت از حد ضروری ہے اس کے لئے انسان کو محنت و مزدوری کرنی پڑتی ہے اور
ان کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے اسے روزگار کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور
اختیار کرنا پڑتا ہے۔اگر بغور جائز ہ لیا جائے تو پوری دینا میں مزدور ،
محنت کشن اور قلمکار لوگوں کی تعداد باقی شعبہ ہائے زندگی سے زیادہ ہے بلکہ
دنیا بھر کی بڑی بڑی معیشتوں میں مزدوروں اور محنت کشوں کو ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت حاصل ہے۔دنیا کا ہر ملک اپنے شہری کے لئے جن ضرورتوں کواز حد ضروری
گردانتا ہے ان میں شہری کی صحت، تعلیم، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور
روزگار کی فراہمی سر فہرست ہیں۔ اپنے شہری کے لئے ان سہولیات کی فراہمی
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے ۔میرے
ملک کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے جو کہ بیرونی قرضوں کے بل
بوتے پر اپنی معیشت کو سہارا دے کر چلا رہا ہے۔ان ضروری سہولتوں کی عدم
دستیابی اس ملک کا شروع دن سے اہم مسئلہ رہا ہے۔میرے ملک کے مزدوروں
قلمکاروں کو روح اور جسم کارشتہ قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ پا پڑ بیلنے پڑتے
ہیں۔صحت کے معاملے کو دیکھ لیں پچھلے دنوں ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی اس مسئلہ
پر حکومت نصیحتیں کرتے ہوئے اور اصلاحات لانے کے لئے احکامات دیتی نظر آتی
اور اس کو انسانی بنیادی حقوق قرار دیااور کہا کہ اس پر عدلیہ آنکھیں بند
نہیں رکھ سکتی حکومت اس کو سنجیدگی سے لے ورنہ ہم احکامات جاری کریں گے۔
چونکہ راقم محنت کشوں،قلمکاروں کی تنظیم کا اہم عہدیدار ہے۔یہ بات میرے
مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر اوقات محنت کشوں، قلمکاروں کو اپنے پیاروں کا
علاج کروانے کی غرض سے اپنا جی پی فنڈ نکلوانا پڑا جس سے اپنے بیٹے ، بیٹی،
ماں یا باپ کا ضروری علاج کروانا پڑا جس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا ۔کم ازکم
25000/-ہزار روپے تنخواہ لینے والے مزدور کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنے
پیاروں کی معمولی سرجری بھی کروا سکے۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین چار
مریض پڑے ہیں ادویات کی فراہمی ناممکن ہے۔ سرجری کے لئے تین تین چار چار
ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اگلی سہولت مزدور کے بچوں کی تعلیم کی ہے اس کی
حالت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے معیار پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں
حکومتی عدم توجہی اور سہولیات کی عدم فراہمی ،سٹاف کی کمی جیسے مسائل
سرکارسکولوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔مزدور کے بچوں کے
لئے سکولوں کا معیار اور سلیپس علیحدہ جبکہ امراء اور ریئسوں کے بچوں کے
لئے سکولوں اور سلیپس کا معیار یکسر علیحدہ ہے۔طبقاتی نظام نے عام آدمی کو
اس نظام کہن سے متنفر کر دیا ہے مزدور کا بیٹا ٹاٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھنے سے
قاصر ہے۔ اعلی تعلیم تو مزدور کے بچوں کے لئے خواب بن کر رہ گئی ہے۔محنت
کش، مزدوراور قلمکار کا بچہ آج بھی نامساعد حالات میں اپنی بقاء کی جنگ
پارٹ ٹائم مزدوری کر کے لڑتا نظر آتاہے اور اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے کے
لیے پارٹ ٹائم جاب کرتا ہوا صرف آپ کو اس محروم طبقے کا لعل ہی نظر آئے گا۔
اشرافیہ کے بچوں کی ایک مثال بھی آپ نہیں ڈھونڈسکیں گے کہ وہ زیور تعلیم سے
آراستہ ہونے کے لیے پارٹ ٹائم نوکر ی کرتے ہوں، طبقاتی نظام ان کے ناز نخرے
اور چونچلے پورے کرنے میں سرگرداں ہے اورمزدور کا بچہ اپنے مستقبل کے لئے
محنت کے ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے کے نا کارہ نظام سے نبردآزما ہے ۔ اگلی
سہولت کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی ہے کم ازکم 25000/-ہزار وپے تنخواہ
لینے والے مزدور کے صرف پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنائیں تو اسے
صرف عید کے عید ہمسایوں کے گھر سے بکرے کے گوشت کی اُمید ہوتی ہے ۔دال ،
سبزیاں،چکن، چینی،بناسپتی گھی، گندم کا آٹا اس کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا
ہے اس کے بچے فروٹ کو صرف دیکھ سکتے ہیں کھانے کی صرف خواہش کرسکتے
ہیں۔موجودہ شدید مہنگائی کی لہر نے مزدور اور قلمکار سمیت عام آدمی کا
بھرکس نکال دیا ہے اور اُسے دن میں تارے نظر آتے ہے۔ اپنے بچوں کو میں
باتوں میں لگا لیتا ہوں جب بھی راہ میں کھلونوں کی دُکان آتی ہے کے مصداق
مزدور صرف اپنے بچوں کا پیٹ باتیں سنا کر تو بھر سکتا ہے عملی طور پر اتنی
تنخواہ میں اس کے لئے ناممکن ہے ۔ میں دُنیا کے ماہر بجٹ سازوں کو چیلنج
کرتاہوں کہ وہ 5افراد کے کنبے کا 25000/-ہزار روپے میں ماہانہ بجٹ بناکر
دکھا دیں تومیں سمجھوں گا کہ وہ ملک چلا سکتے ہیں۔
25000/-ہزار روپے میں فی زمانہ ایک کنبے کا ماہا نہ بجٹ بنانا کے شوکت
ترینوں اور اسحق ڈاروں کے بس کی بات نہیں ۔ یہ صرف قدرت کا کمال ہے کہ
مزدور کی محنت کی عظمت کے طفیل اس کے بچوں میں صبر واستقلال اور استقامت
جیسی صفات پید اکر دیتی ہے ۔یہ 25000/-ہزارروپے لینے والے لوگ اﷲ کے صابر
اور شاکر بندے ہیں جو کہ اپنی ضروریات زندگی روک کر اپنے اوپر جبر کر کے
استقامت کا پہاڑ بن کر شب وروز گزارہے ہیں ۔ جس سے قدرت معاشرے میں توازن
پیدا کر دیتی ہے ورنہ اس طبقاتی نظام کا منطقی انجام صر ف اور صرف تباہی
اور بربادی ہے ۔مزدوری نہ ملنے پر شاعر نے یوں تبصرہ کیا ہے۔
موت سے جوڈرتا نہ تھا بچوں سے ڈر گیا
اک روز جب مزدور خالی ہاتھ گھر گیا
اس سے اگلی سہولت روزگار کی فراہمی ہے جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی اور یہ
مسئلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جوں کا توں رہا ہے۔ ہمیشہ اس مسئلہ کی
وجہ سے خودکشیوں کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اگر مزدورکا بچہ قدرت کی کرشمہ
سازی سے اچھا پڑھ لکھ جاتا ہے تو اس کوا روزگار حاصل کرنے میں جس طرح کی
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ہمیشہ طاقتور
میرٹ اس کے آڑے آتا ہے ، مایوسی بعض اوقات مزدور کے بچوں کو جرائم پیشہ
افراد میں دھکیل دیتی ہے اپنا جائز حق نہ ملنے پر ان کی ساری صلاحیتیں اور
توانائی منفی سرگرمیوں میں صرف ہوجاتی ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑپید ا ہوتا
ہے اس کی تمام تر ذمہ دار ریاست ہے جس کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو
بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ مزدور اور قلمکار لوگوں کے بچوں کی آج بھی سب سے
بڑی ضرورت صحت، تعلیم ، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور باعـزت روزگار کی
فراہمی ہے اس مزدور کے بچوں کی جس کے بارے میں اﷲ نے کہا ہے کہ وہ محنت
کرنے والے کا دوست ہے ۔ اﷲ کے اس دوست کے لئے آج بھی ریاست صحت، تعلیم،
کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بنا کر خوش کر
سکتی ہے(حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے
سے پہلے اُسے ادا کردی جائے)اﷲ کا دوست خوش ہوگا تو یقینا اﷲ بھی خوش ہوگا
اور اس کی رحمت ، فضل وکرم اور مددونصرت اترے گی اور خوشحالی آئے گی(انشاء
اﷲ) جس سے ملک میں ترقی کابول بالا ہوگا ۔ حکومت اگر آج یہ تہیہ کرلے کہ وہ
اپنے ملک کے مزدور اور قلمکار کی عزت کرے گی اور اس کو ضروریات زندگی کی
فراہمی یقینی بنائے گی تو حکومت کو اس کے لئے لمبے چوڑے اخراجات کر نے کی
بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی بلندو بانگ دعوے کرنے کی، جن کو کبھی بھی
پورا نہیں کیا جاسکتا صرف داغا جاسکتا ہے ۔حکومت آج سے اس پالیسی کا نیک
نیتی سے اعلان کرے اور اس پر عملدرآمد کی قسم اٹھائے کہ آج کے بعد سرکاری
سکولوں میں مزدورں اور قلمکاروں کے بچے اور حکمران طبقے کے بچے اکٹھے بیٹھ
کر تعلیم حاصل کریں گے ۔وزیر اعلیٰ اور سیکرٹری کا بچہ اور عام مزدور اور
کلرک کا بچہ ایک سکول ، ایک مادر علمی میں پڑھے گا ۔ مجھے بتائیں اس کے لئے
کون سا بجٹ اور دیگر اخراجات درکار ہیں صرف نیک نیتی کا ہتھیار درکار ہے ۔
آج کے بعد مزدوروں اور قلمکاروں کے پیاروں اور حکمران طبقوں کے پیاروں کا
علاج و معالجہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا اور وہ اکٹھے اس سہولت سے
فائدہ اٹھائیں گے تو مجھے بتائیے اس کے لئے کونسا اضافی بجٹ درکارہوگا۔آج
سے یہ اعلان کر دیا جائے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر
تمام مقتدر حلقے کھانے پینے کی ضروری اشیاء کی خود خریداری کیا کریں گے اور
ان کے لئے روزمرہ کی ضروری چیزیں خود خریدنے کی پابند ہوگی تو اس کے لئے
کونسا بجٹ درکارہوگاجبکہ میرٹ پرروزگار کے مواقع تما م شہریوں کے لئے یکساں
ہوں گے اور میرٹ ہر حال میں قائم ہوگا جبکہ رشوت اور سفارش کو نکال دیاجائے
تو مجھے بتائیں اس کے لئے کونسا علیحدہ غیر معمولی بجٹ درکارہوگا۔آج کے بعد
کھانے پینے کی اشیائے خوردونوش سب سے پہلے پاکستانی شہری کو ازراں نرخوں پر
فراہم کی جائیں گے اس کے بعد ایکسپورٹ ہوسکیں گی۔ ان تمام اقدامات کا نفاذ
صرف اور صرف نیک نیتی اور ا علی ملکی مفاد میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ
سے کیا جاسکتاہے ۔حکمران طبقے کو اپنے وجودگی نفی کرکے اس پر عملدرآمد
کروانا پڑے گا۔ عام مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کردی جائے تو
وہ موجودہ ہوشربا مہنگائی میں بھی روز مرہ زندگی کو بآسانی گزار سکتا ہے۔
یہ یوم مئی کا حقیقی پیغام ہے جو اس روح کے مطابق ہے ۔
|