عصری جامعاتی تحقیق

 عصر حاضر میں جامعات میں تحقیقی صورت حال کے حوالے سے بنیادی طور پر تین سوالا ت سامنے آتے ہیں ۔
1۔ جامعاتی سطح پر نئی تحقیق یا دریافت سامنے نہ آنے کے اسباب و محرکات کیا ہیں ؟
2۔ اردو ادب میں معیاری تحقیق کم کیوں ہو رہی ہے؟
3۔ جامعاتی سطح پر تحقیق کے معیار کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

ان سوالات کی بدولت جامعاتی سطح پر تحقیق کے مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان مسائل کے حوالے سے ان کا ممکنہ حل تجویز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان سوالات کے جوابات اگرچہ بہت طویل ہیں مگر یہاں بنیادی نکات کی تلخیص پیش کی جائے گی۔
عصر حاضر میں جامعات میں بیشتر تحقیق ، تحقیقی عنصر کے بجائے تنقیدی عنصر زیادہ رکھتی ہے۔ چونکہ مجموعی طو ر پر سبقت لے جانے اور ڈگری کا حصول ہی اب جامعاتی تحقیق کا مقصد نظر آ رہا ہے تو ایسی صورت حال میں جامعاتی تحقیق ، تحقیقی پن سے خالی نظر آتی ہے۔عصر حاضر میں یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق میں کوئی نیا پن خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو محقق کی تساہل پسندی ہے اس کے علاوہ مجموعی طور پر اب محقق اس کام کو اہمیت دیتے ہیں جس کام کے مواد کا حصول انھیں مشکل نہ ہو اور وہ گھر بیٹھے ہی اپنی ڈگری کے حصول کے لیے مقالہ تحریر کر لیں۔ ایسی صورت میں تحقیق کے اندر کوئی نئی دریافت یا ادب کا کوئی نیا پہلو سامنے آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ طالب علم جامعاتی سطح پر اب ایسی تحقیق کرنے سے گھبراتے ہیں جس میں زیادہ وقت صرف ہو اورانھیں جامعات کی زیادہ فیسز دینی پڑیں لہٰذا وہ بس جلدی جلدی پہلے سے موجود کام کے کسی ایک پہلو کو پکڑ کر اس پر مقالہ تحریر کر دیتے ہیں۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک سے ہماری جامعاتی سطح کی تحقیق کا مقابلہ کریں توتحقیق کے میدان میں ہمارے ادارے اس قدر پیچھے ہیں جہاں سے عالمی معیاری تحقیق تک پہنچنے میں نہ جانے کتنا وقت صرف ہو جائے گا۔

اگرچہ اردو زبان میں تحقیق کا طریقۂ کار ماضی میں شاندار رہا ہے مگر اب اس میں تجدید کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اردو طلبا میں علمی شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق سے اردو ادب کے طالب علموں کو واقف کرانا چاہیے۔اور انھیں تحقیق کرنا سکھانا اس دور کی اولین ضرورت ہے۔جامعاتی سطح پر اب تحقیقی مقالے لکھنے میں ایک نیا چلن در آیا ہے کہ بعض تنقیدی نظریات کی مدد سے متون کو پرکھ کر مقالے تحریر کیے جا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی تین بڑی جامعات نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ، اسلام آباد اور علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد میں تھیوری کے تناظر میں کیے گئے 200 سے زائد مقالے راقمہ کی نظر سے گزرے ہیں جن میں سے چالیس مقالے بھی اس قابل نہیں جنھیں معیاری تحقیق کہا جائے اس لیے کہ ان مقالوں میں تحقیقی کام کم سے کم ہوتا ہے جب کہ ان مقالوں میں کسی مغربی نقاد کا ایک نظریہ اٹھا کر اس کا ترجمہ کر دیا جاتا ہے اور اس خاص نظریے کے تناظر میں ناول یا افسانوں و شاعری کا تجزیہ کر دیا جاتا ہے ۔ا س وجہ سے متن کی تفہیم بھی محدود ہو جاتی ہے اور معیاری تحقیق معرض وجود میں نہیں آتی۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تحقیق اور تنقید میں حد فاصل قائم کرکے تنقید کے ساتھ ساتھ خالص تحقیقی موضوعات پر بھی مقالے لکھوانے چاہیے تاکہ تحقیق کا معیار بلند ہو۔ موجودہ دور بین الاقوامی شعبہ جاتی تحقیق کا دور ہے۔ تقابلی مطالعات کے لیے دنیا بھر میں گنجایشیں پیدا ہورہی ہیں۔ اردو ادب کے طالبعلموں کو دنیاوی تحقیق سے ہم آہنگ کرکے انھیں جدید بنایا جا سکتا ہے ۔اردو تحقیق کے ماحول کو بدلنے اور اس سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔

تحقیق میں نیا پن لانے کے لیے سب سے پہلے تو جامعاتی سطح پر نصاب کی از سر نو جانچ کرنی چاہیے اور نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیےجب نصاب عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہو گا تو طالب علم تحقیق کے جدید اصولوں سے روشناس ہوں گے انھیں معلوم ہو گا کہ اس وقت عالمی سطح کی جامعات میں تحقیق کے نئے زاویے اور نئے پہلو کون سے ہیں ؟ کیسے ایک طالب علم وقت کی محدودیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک منفرد تحقیق کر سکتا ہے اور جامعاتی سطح پر کی جانے والی تحقیق کا طالب علم کو ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ کیا فائدہ ہو گا۔ وہ کون سی مہارتیں ہوں گی جنھیں یہ طالب علم تحقیق کے ساتھ ساتھ صیقل کر سکیں گے ۔جب ڈگری ان کے ہاتھ میں ہو ساتھ ہی وہ کسی ایک مہارت سے بھی آراستہ ہوں جس کی وجہ سے وہ عملی زندگی میں کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

تحقیق سے جب طالب علم اس تحقیق کی افادیت سے آگاہ ہو گا تب ہی وہ اپنی تحقیق پر زیادہ توجہ، وقت اور پیسہ صرف کرے گا ورنہ نہیں ۔
 

Naeema Bibi
About the Author: Naeema Bibi Read More Articles by Naeema Bibi: 7 Articles with 15960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.