علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے۔
حدیث
کہتے ہیں کہ اگر "ایک" عورت تعلیم یافتہ ہو تو پورا خاندان تربیت حاصل کرتا
ہے۔صرف عورت کے پاس یہ اعزار ہے کہ اس نے حسن البناء شہید ، صلاح الدین
ایوبی اور محمد بن قاسم جیسے کردار تیار کیے۔سب سے زیادہ احادیث ایک جوان
عورت سے ہی مروی ہیں۔قدیم زمانے میں عورت " تعلیم و تربیت" حاصل کرتی
تھیں۔ان خواتین نے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اُس دور کا جدید علم بھی
حاصل کیا اور اپنی تربیت کے لیے بھی کوشاں رہیں۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری
پڑی ہے کہ جب مسلمانوں نے اسلام کو تھامے رکھا تو یہ حکومت و بادشاہت پائے
لیکن جب اسلام کو فوقیت نہ د ی تو رسوا ہوئے۔اسی طرح جب دورِ حاضر کی عورت
نے اپنی رِدا اپنے ہاتھوں، اپنے سر سے اتاری تو خاندان اخلاقاً تباہ و
برباد ہوئے۔وہ عورت کیوں کر کسی کی تربیت کر سکتی ہے ،جس نے خود کی تربیت
نہ کی ہو؟اس علم کا کوئی فائدہ نہیں جو انسان کو شعور نہ دے۔ایسا علم
حقیقتاً "موت" ہے۔آنے والی نسلیں اپنے آباؤاجداد کے نقشِ قدم پر چلتی
ہیں،تو پھر آج جس بے حیائی کو فیشن سمجھ کر اپنایا جا رہا ہے چند سال بعد
اسے رواج سمجھ کر بخوشی قبول کیا جائے گا۔شاید یہ وہی وقت ہے جس کے بارے
میں یہ کہا گیا کہ اس وقت تم تعداد میں زیادہ اور وزن میں ہلکے ہو گے ، وجہ
"دنیا سے محبت" ہو گی۔دنیا سے محبت کے نتیجے میں میں مسلسل ہماری آخرت کا
بیڑہ غرق ہو رہا ہے اور ہم تماشائی بن چکے ہیں۔آج!! تعلیمی اداروں (سکول و
کالجز) میں نقاب پر پابندی ہے ۔وہ بھی مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسلام کے
نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بڑی سے بڑی ایجادات کر ڈالیں۔انسان کا پرندوں کی طرح
اڑنے کا تصور،کافی،فاؤنٹین پین،کیمرہ،صابن،سوپ،آلاتِ سرجری،ریاضی کے
بےتحاشہ فارمولے کسی مغربی سائنسدان کی نہیں بلکہ مسلمان سائنسدانوں کی
ایجاد ہیں۔آج کے پر فتن دور میں ذرا سی ہمت کر کے اسلام کے دائرے میں رہتے
ہوئے جدید تعلیم ممکن ہے۔۔۔ہاں!!! یہ ممکن ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہو نازاں
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہِ زن
ہے علم و محبت کے لیے علم و ہنر موت
اقبال
ازقلم
عمّارہ ایاز
|