پاکستان خطہ ارضی پر مدینہ طیبہ کے بعد واحد ریاست ہے جس
کی تشکیل میں کلمہ اسلام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس کلمہ اور نسبت مدینہ
کا تقاضا ہے کہ ملک کے خواص و عوام سبھی اس سلسلہ و تعلق کی لاج رکھنے کی
سعی کریں۔کلمہ اسلام پڑھ کر انسان حلقہ بگوش اسلام ہوجاتاہے تو معاً اس پر
اسلامی تعلیمات کی عملداری ، ان کی حفاظت و مواضبط اور شعائر اسلام
کااحترام لازم ہوجاتاہے۔ دین متین خالی خولی اور بے ربط دعوؤں کو قبول کرنے
کی بجائے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ اسلام کے عقائد،عبادات اور احکام پر
عملی مظاہرہ بھی کیا جائے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بدعملی و بے عملی
کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔رسالتمآبؐ کا معمول مبارک تمام عمر یہی رہاکہ
جس بات کا حکم دوسروں کو دیا سب سے پہلے اس کو عملاً آپؐ نے ہی اختیار
فرمایا مباداکوئی یہ خیال نہ کرلے کہ ہم کو جو نصیحت کی جاتی ہے وہ قابل
عمل نہیں۔
سوء اتفاق ہے کہ موجودہ مسلم معاشرہ بالعموم اور ارض پاک کے باسی من حیث
المجموع اسلام کے بین ثوابت کی توہین و تضحیک عملی طورپرکرتے نظرآتے ہیں۔
اگرچہ آجکل زبانی ارتداد کی شکلیں بھی ظاہرہورہی ہیں کہ کسی شخصیت کے
والدین کو رحمت عالمؐ کے والدین کی طرح خوش بخت کہنا اور انبیاء و رسل کی
طرح اپنی پسندیدہ شخصیت کو عزت و احترام کے لائق سمجھنا جیسے واقعات پے
درپے رونما ہورہے ہیں جو افسوسناک اور قانونی و اخلاقی لحاظ سےقابل گرفت
ہیں۔یہی نہیں اپنے قائد و لیڈر کی محبت میں ہر جائز و ناجائز حد کو عبور
کیا جارہاہے کہ خواتین برہنہ ہونے اور مرد و زن کے بیباک اختلاط کو اختیار
کرنے پر پشیمانی اور بربادی اعمال کا احساس و ادراک تک نہیں رکھتے ۔دوسری
جانب قائد و رہبر اپنے مخالفین پر بے بنیاد و بے جا الزامات کی آڑ میں
اسلامی و مشرقی اخلاقیات اور رواداری کو فروگذاشت کرچکے ہیں کہ اب تو ملک
کے مؤقر اداروں اور ان کے افسروں پر قبیح و شنیع قسم کے الزامات عائد کرتے
وقت لمحہ بھر کے لئے توقف کرکے نہیں سوچتے کہ اس کے نسل نو پر کس قدر برے
اثرات مرتب ہونگے۔عوام اور اداروں اور محافظوں کے مابین کدورت و نفرت کو
فروغ دینے کی صورت میں ملک کو داخلی و خارجی اور سفارتی میدان میں سبکی و
ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔اسلام نے جھوٹی تہمت لگانے والے پر حد قذف کے
اجراء میں کوڑے لگانے کے ساتھ مردودالشہادۃ قراردیاہے۔
اسلام میں امام و حاکم کو جو بلند مقام و مرتبہ عنایت کیا گیاہے تو ان پریہ
بھاری ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے کہ ان کے اچھے عمل کو اختیار کرنے والوں
کے برابر اجر ان کو ملے گا اور برے اعمال و افعال و اقوال کی پیروی کرنے
والوں کے افعال قبیحہ و رذیلہ کے مضر اثرات بھی اس کے نامہ اعمال میں درج
ہونگے۔یہی وجہ ہے فرمایا گیاہے کہ "لوگ بادشاہوں کے دین پر چلتے ہیں"یعنی
جو کچھ بھی قائد و رہبر خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی اس کے افعال و حرکات و
سکنات کی پیروی اس کے ماتحت و ماننے والے بھی کرتے ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی
فرمایا ہے کہ "ہرنگہبان اپنے ریوڑ کا ذمہ ارہے اور اس کو جوابدہی کا سامنا
کرنا پڑے گا"۔ایسے میں سیاسی و مذہبی معاملات اختلاف کی بناپر معاشرہ میں
کذب و افترا پردازی،بدزبانی و بدکلامی اور دشنام طرازی و سب و شتنم کو فروغ
دینےاور صبر و برداشت، رواداری و محبت اور حسن اخلاق کا جنازہ نکالنے کی
ذمہ داری اس قائد و لیڈر پر عائد ہوتی ہے جو زبان سے تو دعویٰ ریاست مدینہ
کا کرتے نہ تھکے مگر قول و عمل اس کے برخلاف ہوبلکہ رحمت عالمؐ کے اسوہ
حسنہ اور اخلاق کریمہ سے موئے انحراف برت لیا جائے کہ آپؐ نے اپنے اور
بیگانوں سے کس طرح کا سلوک روارکھا۔اسلام و جان کے دشمنوں سے بھی اس
وارفتگی و ہمدردی و نرم مزاجی کو اختیار فرمایا کہ ناصرف آپؐ کے اعمال حسنہ
بلکہ آپؐ کے متبعین صحابہ کرام کے مثالی اخلاق فاضلہ کو دیکھ کر غیرمسلم
حلقہ بگوش اسلام ہوجاتےتھے۔کیا موجودہ دور میں یہ ممکن ہے کہ ہمارے
سیاستدانوں اور قائدین کی طرز زندگی کو دیکھ کر کوئی فرد بشر اسلام و
مسلمانوں کے قریب آنے کا سوچ بھی سکے ؟
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس کا تدارک و ضبط کا انتظام کرنا امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر کے زمرے میں آتاہے کہ کلمہ اسلام کے نام پر بننے والے
ملک میں ایسے بد عمل و بے عمل لوگوں کا راستہ روکا جائے اور ان پر نکیر کی
جائے کہ بحیثیت مسلمان دعویٰ و عمل میں مطابقت و موافقت کا پیدا کرنا ضروری
ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نسبت مدینہ و نبی رحمتؐ اور کلمہ
اسلام کا بھرم رکھنے کی کوشش میں جہدمسلسل کی جائے۔اسلامی تعلیمات پر عمل
داری کوحرزجان بنانے کی صورت میں ہی ملک کی معاشی و معاشرتی اور سیاسی
گرداب سے گلوخلاصی ہوسکتی ہے ۔سیاسی و مذہبی قائدین اور میڈیا و قومی
اداروں کا فرض ہے کہ ملک کی نسبت کلمہ کی بے توقیری اور اسلامی شعائر و
ثوابت اور اخلاق کریمانہ کے برخلاف عمل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ
ملک کے سواد اعظم نوجوانوں کو فکر ی و نظری بے راہ روی سے بچنے کا سامان
میسر آسکے۔اللہ تعالیٰ تمام قائدین کو صبر و برداشت اور اختلاف میں بھی
اچھے اخلاق کو اختیار کرنے کی توفیق بخشے جس کا حکم قرآن میں اللہ نے دیا
ہے "اچھے انداز و اسلوب میں اختلاف کا اظہار کرو"اوراللہ جل شانہ ملک و ملت
کی ہمیشہ کی طرح حفاظت فرمائے۔آمین
|