ماضی کی چند یادیں

کہاں سے شروع کروں ، ہر یاد ، ہر جملہ ، ہر بات کہتی ھے مجھے لکھو مجھ سے پہل کرو- میں اپنے ہی سکول سے شروع کر تی ہوں- میں اس سکول کی طالبہ تھی جہاں پر تقریبا ہر عمر والے بچے بچیاں پڑھتی تھیں۔ سٹوڈنٹ کی جگہ طالب علم کہا جاتا تھا۔ اکیڈمی کی جگہ سکول یا مکتب کہا جاتا تھا۔ میں اس وقت کو یاد کرتی ہوں جب استاد کو ٹیچر نہیں استاذ محترم کہا جاتا تھا۔

ماضی کی چند یادیں

کہاں سے شروع کروں ، ہر یاد ، ہر جملہ ، ہر بات کہتی ھے مجھے لکھو مجھ سے پہل کرو- میں اپنے ہی سکول سے شروع کر تی ہوں- میں اس سکول کی طالبہ تھی جہاں پر تقریبا ہر عمر والے بچے بچیاں پڑھتی تھیں۔ سٹوڈنٹ کی جگہ طالب علم کہا جاتا تھا۔ اکیڈمی کی جگہ سکول یا مکتب کہا جاتا تھا۔ میں اس وقت کو یاد کرتی ہوں جب استاد کو ٹیچر نہیں استاذ محترم کہا جاتا تھا۔ کلاس روم کو سکول کا کمرہ کہا جاتا تھا۔ حاضری رجسٹر پہ یس سر نہیں حاضر جناب یا اپنا ہاتھ کھڑا کیا جا تا تھا۔ میں اس وقت کو یاد کرتی ہوں جب کرسیوں کی جگہ ٹاٹ ہوا کرتے تھے۔ استاد کا ادب اور احترام اس قدر ہوتا تھا کہ جب تک استاد نہ بیٹھے ہم سر جھکا کے کھڑے رہتے تھے۔ استا کے آگے چلنا توہین سمجھا جا تا تھا ۔ جب بڑی بڑی بکیں نہیں چھوٹی چھوٹی کتابیں ہوا کرتیں تھیں۔ مجھے اس وقت کی تلاش ہے جب ہم کھلے آسمان، کیکر یا ٹہلی کی چھاوں میں پڑھا کرتے تھے۔ میں اس دور کو یاد کرتی ہوں جب ہم استاد کے کام بھاگ بھاگ کر کرنا ثواب کا کام سمجھا کرتی تھی ۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب تفریح یا بریک نہیں آدھی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب تختی ، ڈئیر پنسل ،سلیٹ سلیٹی، قلم دوات ہوا کرتیں تھیں۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب سکولوں میں باتھ روم نہیں تھے ہمیں کھتوں میں جانا پڑتا تھا۔جی ھاں مجھے خاکی یا ملیشیاء کی وری بہت یاد آتی ھے۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب اسمبلی میں قومی ترانہ کے بعد لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کے خوبصورت دعائیہ کلمات کہے جاتے تھے وہ دعا آج بھی مجھے یاد ہے ،جب سکولوں میں پی این کو چپراسی کہا جاتا تھا، چاچا چپراسی سکول کے ساتھ بچوں پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ مجھے اس مالی کو یاد کرنا ہے جو دور سے مشک بھر کرلایا کرتے اور ہمارے چلو پہ پانی ڈال کرپلایاکرتے تھے اور ہم چاچا جان بہت بہت شکریہ کہتے ہوئے اپنے کلاس روم کیکر کے نیچے چلے جاتے تھے۔ اور تفریح کے بعد ریاضی کا پیریڈ ہوا کرتا تھا اور بلیک بورڈ کو چمکا کر سفید چاک ساتھ رکھا جاتا تھا ۔ چاک کی کھٹ کھٹ کی آواز ، استاد کی ڈانٹ کھانے کو دل کرتا ہے ، مجھے وہ سکول یاد آتے ہیں جن کے کمر کچے اور ہوادار ہوا کرتے تھے۔ میرے سکول میں گراسی گراونڈ نہیں کچا کھیل کا میدان تھا۔ مجھے وہ سکول نہیں ملتا جس میں بلیک بورڈ کی جگہ تختہ سیاہ لگا ہوا ہو۔ مجھے وہ سکول یاد کرتا ہے جس میں تختی و سلیٹ ہوا کرتی تھیں۔ مجھے وہ سکول چاہئے جس میں تعلیم کے ساتھ تربیت ہو ، بڑے چھوٹے کا احترام ہو، والدین و اساتذہ کا احترام کیا جاتا ہو۔ کاش وہ لمحے دوبارہ آ سکتے اور وہ استاد دوبارہ زندہ ہو کر آ سکتے اور آج کی بگڑی نسل کو وہ سبق سکھا سکتے ۔ مجھے وہ سکول نظر نہیں آتا جس نے قائد اعظم رح پیدا کیا، اقبال پیدا کیا، لیاقت علی پیدا کیا ہو۔ جس نے 10 شھدائے نشان حیدر پیدا کئے ہوں۔ مجھے اس سکول کی تلاش ہے جس نے مادر وطن پیدا کی ہو جس نے ڈاکٹر عبدالقدیر پیدا کیا ہو، جس نے ڈاکٹر عبدالحمید پیدا کیا ہو، مجھے اس سکول کی تلاش ہے جس نے نامور دانشور، ادیب ، محقق، شاعر ،اور سائنس دان پیدا کئے ہوں۔ میں کیسے بھول جا وّں اس گزرے ہوے وقت کو جو دوبارہ لوٹ کر نہیں آسکتا ۔ گزرے ہوے وقت کا اک اک پل رولاتا ہے ۔ وہ چہرے ذہن میں نقش ہیں ۔ جو کبھی بھلائے نہیں بھولتے ۔ میں کیسے بھول جاو اپنے محسن استاد ماسٹر محمد بخش کو ۔ میڈم شازیہ مرحوم کی محبت و شفقت کوجنہوں نے نے مجھے انسان اور انسانیت کا سبق یاد کروایا۔ اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمائے ۔ آمین ۔
 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 30 Articles with 16911 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More