معاشرے کی اصلاح ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ ایک طرف سے
بہت پیچیدہ اور دوسری طرف سے بہت ضروری ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم
معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بن رہے ہیں یا اس کے بگاڑ کا؟ تو چلیں اپنے آپ
سوالات کر کے تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
کیا ہم ایک با تہذیب با اخلاق با عزت، فرمانبردار معاشرے کہ باسی کہلانے کے
لائق ہیں؟ کیا ہم اپنی ذمہ داری، فرائض اچھی طرح سے سر انجام دے رہے ہیں؟
یا اپنے ماتحت اور اہل و عیال کی اصلاح و تربیت کر رہے ہیں؟ اور سب سے اہم
سوال کے کیا ہم اس قابل ہیں کے کسی کی اصلاح و تربیت کر سکیں؟
اگر نہیں تو ابھی سے اپنے کردار اور معاشرے کی اچھی تعمیر میں جٹ جائیں تا
کہ دنیا و آخرت میں نکھار اور کامیابی مل سکے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ سب ایک
جیسے ہیں بلکہ کچھ بہترین لوگ بھی ہیں جو اچھی صفات کے مالک ہیں مگر بہت کم
ہیں۔
آج ہمارے بچوں سے لے کر بوڑھے بزرگوں تک کا طبقہ زیادہ تر جھوٹ، کھوٹ،
ملاوٹ، کرپشن، دھوکہ، چوری، ڈاکا، قتل و غارتگری، زنا، غیبت، تہمت، کردار
کشی، جیسے گھناونے کاموں میں ملوث ہیں، ان میں سے بعض تو تعلیم یافتہ ہیں
جن سے بہت زیادہ شکوہ ہے اور بعض وہ ہیں جنہوں نے کبھی تعلیم حاصل ہی نہیں
کی، اس سے سمجھ آتا ہے کہ ہمارے ہاں افراد کی اچھی طرح تربیت نہیں ہو رہی
اور بغیر تربیت کے کسی معاشرے اور خطے میں ترقی و امن امان نہیں آ سکتا۔
اہل لغات نے تربیت و اصلاح کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تربیت کا مطلب
پالنا ہے، یعنی کسی کی تدریجاً نشوونما دے کر حد کمال تک پہنچانا۔
اصلاح کا مطلب انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر ان کی دیکھ بھال کر کے
صحیح طرح پروان چڑھانا اور ان کی اصلاح کرتے ہوئے جن صفات کی ضرورت ہے وہ
اجاگر کر کے تکامل اور صحیح راہ پر گامزن کرنا۔ اور لفظ تربیت اصلاح کی
معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھیں کہ جس طرح باغبان
اپنے پودوں اور پھلوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتا ہے اور انہیں موذی امراض
و نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مطلوبہ مقصد حاصل ہو سکے۔ تربیت و
اصلاح ہر عمر میں کی جا سکتی ہے، مگر جن کی بچپن میں کی جائے وہ معاشرے میں
مثالی کردار ادا کرتے ہیں۔
عربی میں کہاوت ہے ( العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر) ۔ بچپن میں سیکھی
ہوئی چیز پتھر پر نقش کی طرح ہوتی ہے۔ بچپن کے نقوش گہرے اور دیر پا ہوتے
ہیں جو کہ بڑھاپے تک چلتے ہیں۔
موجودہ سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں زندگی آسان ہو رہی ہے وہیں
والدین کے لیے فرائض سر انجام دینے میں دشواری اور کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
بچوں کی تربیت و اصلاح میں بہت صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے، والدین کو
اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے ہوئے ان کی
پرورش کرنی چاہیے، بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں سب سے زیادہ اس کے اردگرد کے
ماحول اور والدین کی تربیت و اخلاق کا دخل ہوتا ہے۔
بچوں کو بنیادی تعلیم میں ابتدائی عمر سے ہی حلال حرام، اچھے اعمال، اعلیٰ
اخلاق، سچائی، ایمان داری، امانت داری، بہادری، احساس، سب کی عزت کرنا،
پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کی پاسداری، لوگوں کی مدد کرنے کہ ساتھ یہ تصور
پیدا کرنا کہ اللہ تعالیٰ ان کی نگرانی کر رہا ہے، اور بری صفات و برے
اخلاق سے بچنا سکھایا جائے۔
شروع سے ہی محنت مشقت اور ذمہ داری کا عادی بنایا جائے، ان کی ورزش، غذا، و
آرام کا خیال رکھا جائے۔ بچوں کی اہانت یا تحقیر سے بچنا چاہیے، بالکل سزا
نہ دینا یا پھر بہت زیادہ سزا دینا دونوں غلط ہیں، اس معاملے میں اعتدال
رکھا جائے، ان سے پیار و شفقت کا برتاؤ رکھا جائے، مگر بے جا لاڈ پیار غیر
ضروری، غیر مناسب، ضد کو پورا کرنا ان کو اور زیادہ ضدی بناتا ہے اس میں
بھی اعتدال سے کام لیا جائے۔ ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں لڑکیوں میں
سے ایک دوسرے پر فوقیت دینا غلط ہے، جس سے نفسیاتی عوارض و انتقام پسندی
ابھرتی ہے اس سے اجتناب کیا جائے، اسکول، مدارس میں بچوں کی مصروفیات اور
دوستوں کی صحبت سے واقفیت رکھی جائے، بچوں کے سامنے کسی کی برائی نہ کی
جائے خصوصاً کسی استاد کی اگر شکایت ہو متعلقہ ذمہ داروں سے بات کی جائے،
بچوں کو اپنی غلطیوں کا احساس دلا کر اصلاح کا دوسرا موقع دیا جائے،
ٹیلیویژن انٹرنیٹ کے حوالے سے نظر رکھتے ہوئے متوازن رویہ اختیار کر کے ایک
نظم و ضبط کا پابند بنایا جائے، تعلیمی، معلوماتی، تفریحی پروگراموں سے
استفادہ اٹھایا جائے، اچھے کتب و رسائل کے مطالعہ کی عادت ڈالی جائے، گھر
میں ایک ذاتی لائبریری لازمی ہو جہاں والدین بھی ساتھ بیٹھیں تاکہ مطالعہ
کا شوق پیدا ہو، ذاتی جھگڑے بچوں کے سامنے کرنے سے پرہیز کر کے ایک دوسرے
کا احترام و عزت کی جائے اس سے خوش گوار اثرات پڑے گیں۔
اسی طرح معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اور چیزیں بھی در کار ہیں جن میں
سے :
صحیح تعلیم کی فراہمی، عدل و انصاف کی فراہمی، اقتصادی اصلاحات، بے روزگاری
کے خاتمے کے طریقوں کو ترویج کرنے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے کا احترام و
تواضع، سیاسی اصلاحات، اخلاقی اصلاحات، صحت کی سہولیات وغیرہ۔
جس کے لیے ہر ایک فرد کو اپنے فرائض منصبی صحیح طرح سے سر انجام دینے ہوں
گے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب معاشرے کے ہر فرد کی صحیح تربیت و اصلاح کی جائے۔
اور معاشرے کی معنی بھی افراد کا آپس میں مل جل کر رہنے کے ہیں، انسان
پیدائش سے لے کر موت تک اسی معاشرے کا حصہ بنا رہتا ہے، اس لیے اس کی اصلاح
کرنا ہر ایک فرد پر لازم ہے۔
اصلاح اور تربیت کرنے کے دوران اگر اپنے ملک اور ملت کے اسلاف کی سیرتوں سے
فائدہ اٹھایا جائے تو بھت زیادہ مثبت اثرات واقع ہو سکتے، خصوصاً نبی اکرم
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو کہ
دنیا کے کامیاب ترین معاشرے کی بنیاد رکھ کر اپنی زندگیاں بہترین انداز میں
بصر کر کے گئے ہیں، جن کی زندگیوں سے سیکھ کر کامیاب اور اچھا معاشرہ بنایا
جا سکتا ہے۔ |