صدقہ خیرات

اتوار کے دن میں گھر پر ٹھنڈے ٹھار میٹھے لال سرخ تربوز سے لفط اندوز ہو رہا تھا سرخ میٹھا تربوز بچپن سے میری کمزوری رہا ہے زمیندار خاندان سے تعلق کی وجہ سے جیسے ہی موسم گرما کا آغاز ہو تا تو ٹیوب ویل پر جا کر بڑے بڑے تربوز ٹیوب ویل کی ٹھنڈی ٹھار تیز پانی کی دھار کے نیچے ڈال کر پہلے تربوز وں کو ٹھنڈا کر تا ساتھ میں تیز دھار کے نیچے سر رکھ کر ٹھنڈے آبشاری پانی کا لطف اٹھاتا جسم کی گرمی کو زائل کرناپھر وہیں پانی کے حوض میں ہاتھوں سے تربوز کھانا میرا دوستوں کے ساتھ پسندیدہ ترین مشغلہ تھا آج بھی میں بچپن جوانی کی یادوں کے ساتھ کالا نمک لگا کر تربوز پر حملہ آور تھا کہ ڈور بیل نے میری محویت اور تربوز کی چیر پھاڑ کو روکا فضا ڈور بیل کی ارتعاش سے لرز اٹھی میں بادل نخواستہ دروازے کی طرف بڑھا میں کسی بھی ملاقاتی سے ملنے اُس کا ڈپریشن داستان غم سننے کے موڈ میں نہیں تھا بلکہ میں تھوڑا سا ناراض غصے میں دروازے تک پہنچا کہ کس نے آکر میں پسندیدہ عمل میں رکاوٹ ڈالی ہے لیکن دروازہ کھولنے پر سامنے کھڑا چہرہ دیکھ کر میرا سارا غصہ اورآف موڈ کا فور ہو گیا دروازے پر میرے بچپن جوانی کا دوست اکرم بلا کھڑا تھا میں اُسے دیکھ کر آگے بڑھ کر گرم جوشی سے بغل گیر ہو گیا وہ بھی مجھے گھر پا کر خوش تھا گلے مل کر بولا جناب آپ توگھر پر ہیں میں تو بہت ڈرا ہوا آیا تھا کہ آپ چھٹی کے دن لوگوں سے نہیں ملتے لیکن میں نے رسک لیا کہ قسمت میں ہوا تو ملاقات ہو جائے گی ورنہ گھر اور یار کے آستانے کو سلام کر کے واپس لوٹ جاؤں گا کوئی اور ہوتا تومیں بلکل بھی خوش نہ ہوتا لیکن اکرم بلّے کو دیکھ کر مجھے واقعی دلی خوشی ہوئی تھی ہمارا ہائی سکول کا کلاس فیلو میڑک میں فیل ہوا تو پڑھائی چھوڑ کر تانگے پر سواری کر لی والد صاحب عرصہ دراز سے تانگہ چلاتے تھے جب اِس نے سکول چھوڑا کچھ عرصہ تو فارغ رہا پھر والد صاحب نے اپنے تانگے پر اِس کو بٹھانا شروع کر دیا میں تعلیمی سیڑھیاں چڑھتا آگے نکلتا چلا گیا لیکن اِس سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تو بہت خوشی سے ملتا اِس کا نام محمد اکرم تھا لیکن یہ ایسی حرکتوں کی وجہ سے بلاّ کے نام سے مشہور ہو گیا تھا ہم لوگ بچپن میں جس کھیل میں شریک ہو ئے یہ صف اول میں ہوتا طویل قامت خطرناک درختوں پر چڑھ جاتا حتیٰ کہ مشکل ترین آسمان کو چھوتے کھجور کے درخت پر بھی چڑھ جاتا گاؤں میں چند ہی جوان ہو نگے جو لمبی آسمان کو چھوتے درخت کھجور پر چڑھ جاتے ہوں یہ لمحوں میں چھلانگیں لگاتا چڑھ جاتا نہر اور دریا پر سیدھی تیراکی کی بجائے الٹی تیراکی کر جاتا ہیڈ بلوکی دریا پر پل کے اوپر سے چھلانگ لگا کر پل کے نیچے تیر کر نکل جاتا شکار کرتے ہوئے دریا جھیل میں شکار زدہ مرغابیوں کوتیر کر پکڑ لیتا چھوٹے قد پر مضبوط جسم والا جوان تھا جب اِس نے دو تین بار بھاگ کر جنگلی خرگوش کو ہاتھ سے پکڑا تو لوگوں نے اِس کانام بلا رکھ دیا کہ تو بلے کی طرح چست تیزی سے دوڑ اور کبڈی کا اچھا کھلاڑی تھا اِس کی پھرتی چالاکی ہر جگہ اِس کو نمایاں رکھتی تھی اپنی اِن حرکتوں کی وجہ یہ چھوٹا سا ہیرو تھا لیڈر تھا ہر کام میں بلا خوف کود پڑتا تھا اِس لیے یہ آس پاس کے دیہات تک میں مشہور ہو چکا تھا شکاری کتے رکھے ہوئے تھے جس سے شکار کرتا دیسی مرغ بھی رکھے ہوئے تھے کبھی کتوں کے دنگل کراتا تو کبھی دیسی مرغوں کے مقابلوں میں فلک شگاف نعرے مارتا نظر آتا اپنی اِن خوبیوں یا حرکتوں کی وجہ سے نمایاں تھا تانگہ رکھا ہوا تھا اِس لیے اکثر تانگے گھوڑے دوڑاتا نظر آتا میں پڑھ کر نوکری کرنے کے لیے کوہ مری چلا گیا لیکن جب کبھی بھی ملاقات ہوتی تو جوانی کے ایام اور شرارتیں یاد کرتے یہ لوگوں کو بڑے فخر سے اپنے کارنامے بتاتا کیونکہ اپنے کارناموں کی وجہ سے نمایاں تھا اِس لیے اِس نے اپنے بھرم کو قائم بھی رکھا حلال کا رزق کماتا میں جب بھی ملتا پوچھتا بلے کوئی کام کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتانا تو بلا سینے پر ہاتھ رکھ کر بولتا جناب مولا کا کرم ہے اُس نے سب کچھ دے رکھا ہے بس جناب آپ خوش ہو کر مل لیا کرومیرے لیے یہی کافی ہے میں نے چند دوستوں سے بھی پوچھا کہ بلا کیسے کردار کا مالک ہے تو دوستوں نے غیرت اور انا کا بتایا کہ بلا ایک غیور انسان ہے حلال کی روزی کماتا ہے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا پھرمیں نے ایک دن بلے کو دیکھا یہ تانگے کی بجائے چنگ چی پر سوار نظر آیا تو بولا جناب چنگ چی تانگے کو کھا گئی ہے لہذا میں نے بھی مجبورا چنگ چی لے لی ہے اب یہی میرا تانگہ ہے اکرم بلا ایک مثبت سوچ خیال کا زندگی سے بھر پور انسان تھا جب بھی ملا چہرے پر پرسکون دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ کوئی شکوہ شکایت نہیں پر سکون مطمئن زندگی کے رنگوں سے بھر پور کیونکہ مشکل کام کرنے کی بچپن سے عادت تھی پیدائشی پھرتیلا کھلاڑی تھا اِس لیے کھلاڑیوں والی سپورٹس مین شپ سے بھی بھرا ہوا تھا آپ اگر کبھی فطری کھلاڑیوں سے ملیں تو محسوس کریں گے کہ وہ ہر بات کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں دوستانہ رویہ رکھتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں دکھ بھری مایوسی والی باتیں نہ کرتے ہیں اور نہ ہی مد مقابل کو مایوسی کی تلقین کر تے ہیں مجھے ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو اﷲ کی موجود نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو حال میں موجود ہوتے ہیں جو ماضی کی ناکامیوں پر ماتم کرتے نظر نہیں آتے نہ ہی مستقبل کے اندیشوں میں گھرے نظر آتے ہیں جوموجود ہے اُس کو بھرپور طریقے سے جیتے ہیں آج بھی بلا میرے پاس آیا تو میں بہت حیران تھا کیونکہ بلا کبھی بھی لاہور مُجھ سے ملنے گھر نہیں آیا تھا میں نے پہلے تو اُس کی تواضع لال سرخ میٹھے تربوز سے کی پھر گھر اچھے کھانے کا کہا کہ میرا قریبی دوست آیا ہے اِس کے لیے اچھی دعوت والا کھانا تیار کیا جائے بلے نے مجھے بہت روکا کہ کھانے کی ضرورت نہیں لیکن میں نے کہا آج بہت عرصے بعد مل کر کھاتے ہیں تو بلا مان گیا اب میں تجسس بھری نظروں سے بلے کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ کسی خاص کام یا وجہ سے آیا تھا یہ عام ملاقات نہیں تھی کوئی خاص کام یا مجبوری بلے کو میرے گھر لائی تھی اب میں مختلف بہانوں سے اُس کو ٹٹول رہا تھا لیکن بلا بتا نہیں رہا تھا کہ وہ میرے پاس کیوں آیا ہے لیکن میں جانتا تھا یہ عام ملاقات نہیں ہے اُس کی وضع داری انا غیرت اُس کو اجازت نہیں دے رہی تھی وہ اپنی غیور طبیعت کی وجہ سے بتا نہیں رہا تھا ورنہ اِس مہنگائی کے عوام کش دور میں بلے جیسا سفید پوش کرایہ خرچ کر کے میرے پاس نہ آتا اِسی دوران کھانا آگیا بلے نے خوب دل بھر کر کھایا جب وہ کھا رہا تھا تو میں خوش ہو رہا تھا کھانے کے بعد چائے آگئی اب بلا صوفے پر پہلو بدل رہا تھا وہ بھی جانتا تھا کہ چائے کے بعد اُس کے بیٹھنے کی وجہ نہیں رہے گی اِس لیے وہ اُس پل صراط سے گزرنے کی کو شش کر رہا تھا جس تکلیف یا مجبوری میں وہ مبتلا تھا میں نے بھی اُس کا حوصلہ بڑھانے کی کو شش اور پوچھا یار بتاؤ میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں تو وہ انکار کر تا رہا لیکن آکر مجبور ہو کر بولا یار سنا ہے تم اور تمہارے دوست صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں غریب لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں پھر اُس کی جسم پر رعشہ طاری ہوا اُس نے کانپنا شروع کر دیا پھراپنے رومال صافے کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر رونا شروع کر دیا ہچکیاں لینا شروع کر دیں بڑی مشکل سے بولا یار مہنگائی بہت ہو گئی ہے بیوی کے آپریشن پر چنگ چی بیچ دی تھی آجکل کر ائے کی چلاتا ہوں مہنگائی ہمارے جیسوں کو کھا گئی ہے یار صدقہ خیرات مجھے بھی دے دیا کرو پھر وہ تیزی سے اٹھا میرے روکنے کے باوجود چلا گیا میں اُس کو جاتے دیکھ کر سوچ رہا تھا مہنگائی کا ناگ کتنے بلوں کو کھا گیا جو بیچارے صدقہ خیرات پر آگئے ہیں کیا آپ کے آس پاس کوئی بلے جیسا تو نہیں اُس کی مدد کریں پلیز ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 652376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.