ارشادِ ربانی ہے:’’قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے اور دن
کی جبکہ وہ روشن ہو‘‘۔ گردشِ لیل و نہار کا مشاہدہ ہر کس و ناکس کے لیے عام
ہے۔ انسان جانتا ہے کہ دن اور رات میں سے کوئی بھی مستقل نہیں ہے۔ ہر رات
کے بعد دن کا آنا اور ہر دن کے تعاقب میں شب کا ہونا ایک آفاقی حقیقت ہے۔
ان دونوں کی مدت کار یکساں نہیں ہوتی ۔جاڑوں میں دن چھوٹا اور رات لمبی
ہوجاتی ہے اسی طرح گرمیوں میں رات مختصر اور دن طویل ہوجاتا ہے۔ موسم کے
لحاظ سے دن اور رات کیفیت بھی بدل جاتی ہے۔ کبھی دن خوشگوار اور کبھی رات
دشوار گزار ہوجاتی ہے لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ رات جتنی بھی سنگین ہو
اس کی نہ صرف صبح ہوتی ہے بلکہ وہ اتنی ہی رنگین بھی ہوتی ہے۔ حالات کی
سنگینی سے مایوس ہونے والوں کے لیے رات کے چھا جانے اور دن کے روشن ہوجانے
میں یہ حوصلے کا پیغام پوشیدہ ہے کہ ؎
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے،جو لوح ازل میں لکھا ہے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
تاریکی کا روشنی میں بدل جانا ایک فطری عمل ہے لیکن کفر کے اندھیرے کوحق کے
اجالے تبدیل کرنے کی خاطر انسانی سعی و جہد کی جانب متوجہ کرنے سے قبل
ارشادِ قرآنی ہے:’’ اور اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا‘‘۔ یہ
اس بات کی شہادت ہے کہ مذکورہ جدوجہد میں دونوں اجناس کی شرکت توہوگی مگر
چونکہ ان طبیعت میں فرق ہے اس لیے مرد و عورت اپنا اپنا منفرد کردار ادا
کریں گے یعنی مرد کو جو صلاحیت عطا کی گئی وہ اس کا استعمال کرے گا اور
خواتین کی جو خصوصیات ہیں وہ ان کو بروئے کار لائیں گی۔ دونوں اپنا اپنا
کام کریں گے کوئی ایک دوسرے کا کام نہیں کرے گا۔ آگےیہ حقیقت منکشف کی گئی
ہے کہ میدانِ عمل انسانی سعی و جہد متضاد سمتوں میں ہوتی ہے۔ فرمانِ قرآنی
ہے:’’ درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں‘‘۔ کچھ لوگ اجالوں کے
پیغامبر بن کر اٹھتےہیں اور کچھ تاریکی کی علمبرداری کرنےلگتے ہیں گے۔ اس
کے بعد ہر دو گروہ کی شناخت اوران کا انجام بیان کر دیا گیا۔
پہلے گروہ کی بابت ارشادِ ربانی ہے:’’ تو جس نے دیا ، تقویٰ اختیار کیا اور
بھلائی کی تصدیق کی ۔ اس کے لیے آسانی کو آسان کردیا جائے گا‘‘۔ یہ نہایت
لطیف اور دلنشین اسلوبِ بیان ہے۔ آگے چونکہ کہا گیا’ اس کا مال کسی کام
نہیں آئے گا‘ اس لیے دینے کا ترجمہ راہ خدا میں مال دینا کیا گیاہے لیکن
یہاں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اہل ایمان کو رب کائنات نےجو بھی عطا کیا ہے
مثلاً وقت، صلاحیت ، قوت و توانائی وغیرہ وہ سب کتابِ ہدایت کی روشنی کو
پھیلانے کے لیے نچھاور کرتے ہوئے اگر وہ خدا کی نافرمانی سےپرہیز کرتا رہے
اور افضل ترین بھلائی یعنی دین اسلام کو سچ مانے تو وہ رب کائنات کے اس کو
یہ خوشخبری سنتا ہے کہ :’’ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے‘‘۔ اس
آیت کا لفظی ترجمہ ہے آسانی کو آسان کردیں گے۔ انسانی فطرت سے ہم آہنگ
ہونے کے سبب دین اسلام پہلے ہی آسان ہے مزید احسان یہ ہے کہ اس کی اتباع
کے لیے آسانی فراہم کردی جائے گی ۔
اس کے برعکس:’’ جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی اور بھلائی
کو جھٹلایا ‘‘۔ یہ تینوں صفات پہلے بیان کردہ رویہ کی ضد ہیں۔ انفاق کے
مقابلے بخل ، پرہیزگاری کے برعکس بے پروائی اور تصدیق سے علی الرغم تردید
تو اس نے اپنی فطرت کے خلاف دشوار گزار راستے کا انتخاب کیا ،ایسے لوگوں کو
آگاہ کیا گیا کہ :’’ اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے‘‘۔ یعنی
دنیوی مگر اس امتحان گاہ میں ان کی رسی دراز کردی جائے گی۔ اہل ایمان کی
نظروں سے جب یہ بات اوجھل ہوجاتی ہے کہ ان لوگوں کوبھی خالق کائنات کے
ذریعہ آسانی عطا کی گئی ہے تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے باغی و طاغی
لوگوں کے غلبہ و کامیابی کو دیکھ کر افسردہ اور مایوس ہونےلگتے ہیں ۔ اس
لیے دوسری جگہ فرمایا گیا:’’ خبردار تمہیں کفّار کا شہر شہر چکر لگانا
دھوکہ میں نہ ڈال دے۔یہ حقیر سرمایہ اور سامانِ تعیش ہے اس کے بعد انجام
جہنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے‘‘۔ باطل کی مرعوبیت سے نجات کی خاطر اس
حقیقت کا ادراک لازم ہے۔
قرآن کریم میں یہی بات اس طرح بھی بیان کی گئی ہے کہ :’’پس اے نبیؐ، آپ
اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں ہم ایسے طریقہ سے اِن
کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی ‘‘۔ ان
لوگوں کی نادانی پر خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے کہ:’’ میں اِن کی رسی
دراز کر رہا ہوں، میری چال بڑی زبردست ہے ‘‘۔ اہل ایمان اس سنگین صورتحال
میں بھی اگر نتائج کی پروا کیے بغیر اپنا فرض منصبی عطا کریں تو ان کو
آگاہ کیا جاتا ہے کہ :’’ کیا آپ ان سے (تبلیغِ رسالت پر) کوئی معاوضہ مانگ
رہے ہیں کہ وہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے جا رہے ہیں‘‘۔نبی کریم ﷺسے اس خطاب
میں منکرین کی سرزنش کی گئی اور فرمایا گیا :’’ کیا اِن کے پاس غیب کا علم
ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں؟ ‘‘۔ ایسے میں اہل ایمان کی خاطر یہ تلقینِ ربانی ہے
کہ :’’ پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو‘‘۔صبرو استقامت کے انعام
کی ایک چھوٹی سی جھلک کرناٹک میں ظاہر ہوئی ہے۔ آگے مزید آسانیا ہوں گی
ان شاءاللہ اور آخروی کامیابی تو سراپا خیر، پائیدار و دائمی ہے لیکن اس
عارضی فرطِ مسرت پر ناصر کاظمی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں؎
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی ،کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ ،غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
|