طلاق سے بچت کے لئے اپنے حقوق سے عاق ہونے کا سبق

ایک پیر صاحب کا، طلاق کے احکام و مسائل کے موضوع پر تحریر کیا گیا مضمون نظر سے گزرا تھا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے
{ سورة النساء میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ: ” اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کر لیں اور صلح خوب ہے ۔“ یعنی ایک عورت اگر اپنے سے اپنے شوہر کو پھرا ہوا دیکھے کہ اس سے علیحدہ رہتا ہے یا کھانے پینے کو نہیں دیتا یا نان نفقہ میں کمی کرتا ہے یا مارتا یا بدزبانی سے پیش آتا ہے اور اس سے دور دور رہتا ہے تو طلاق و جدائی اختیار کرنے سے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ عورت اپنے حقوق کا کچھ حصہ شوہر پر معاف کردے ۔ اسے خوش کرنے کے لئے اپنے حق میں سے کچھ چھوڑ دے مثلاً اپنا مہر معاف کر دے ۔ یا اس میں کمی کر دے ۔اپنی باری کا دن دوسری بیوی کو دے دے ۔اپنے مصارف کا بوجھ ہلکا کر دے اور اس طرح باہمی مصالحت اور میل ملاپ کے بعد عورت اسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے ۔ ازدواجی تعلقات میں تلخی دور کرنے کے لئے یہ ایک ایسا نسخہ ہے جسے شریعت مطہرہ نے عورت کے اختیار اور تصرف میں دیا }

ہم نے یہ سب پڑھنے کے بعد وہاں کمنٹس باکس میں لکھا کہ ۔۔۔ مصنف نے سورہء نساء کی ایک آیت کا ترجمہ اور اس کے ذیل میں جو تشریح بیان کی ہے تو دونوں کا آپس میں کوئی ربط نظر نہیں آتا ۔ آیت کچھ اور کہہ رہی ہے اور اس کی تشریح بالکل کچھ اور ۔ یہ سراسر ایک غیر ذمہ دار اپنے فرائض سے بےخبر بگڑے مرد کو تنبیہ و وعید کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی اور عورت کو ظلم و زیادتی برداشت کیے جانے پر مجبور کرنے والی بات ہے ۔ ناسازگار و دشوار حالات میں عورت کے معاشی لحاظ سے مستحکم اور خود کفیل ہونے کی ضرورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ بلکہ اس کے لئے ایک کم ظرف شخص کی محتاجی کو ہر قیمت پر قبول کیے رکھنے پر زور دیا گیا ۔ ایسی ہی تشریحات و تفاسیر نے عوام الناس میں گمراہی پھیلائی ہے ۔ اگر کوئی شخص کمینے پن پر اُتر ہی آیا ہے تو اب عورت کی کوئی قربانی اور اپنے شریعت کے عطا کردہ حقوق سے دستبرداری بھی اس کو راہ راست پر نہیں لا سکتی ۔ خصوصاً مہر معاف کیے جانے کے بعد تو وہ کسی بھی لمحے اسے طلاق کا تمغہ عطا فرما کے چلتا کر دے گا ۔ بعض حالات میں مہر ہی مرد کے پیروں کی زنجیر بنتا ہے اور اگر وہ طلاق کے ساتھ مہر کی بھی ادائیگی پر قدرت رکھتا ہے تو ایسی صورت میں کم از کم ایک مالی حد تک تو عورت کی اشک شوئی ہو ہی جاتی ہے ۔ اور ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں عورت کا شوہر سے مہر طلب کرنا کسی گناہ یا گالی سے کم نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ فرض کر لیا گیا ہے کہ مرد پر بیوی کے مہر کی ادائیگی صرف طلاق ہی کی صورت میں ضروری ہے ۔ عام حالات میں مرد بیوی کے اس حق کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اور بہت سے خبیث فطرت لوگ بیوی سے جان مفت میں چھڑانے کے لئے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ وہ عاجز ہو کر خلع حاصل کر لے اور یہ بےغیرت اس کا مہر ادا کرنے سے بچ جائیں ۔ اور جہاں شادی کے موقعے پر مہر صرف رسمی طور پر بہت ہی قلیل مقدار میں مقرر کیا جاتا ہے تو آپس میں نبھاؤ نہ ہونے کی صورت میں طلاق عورت کو کسی حلوے کی طرح تھالی میں رکھ کر ملتی ہے ۔ کچھ مشہور زمانہ دینی کتب میں مردوں کی بھی کچھ تربیت سے زیادہ صرف عورت کو غلام بن کر رہنے کے طریقے درج ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اچھی بیٹیاں کبھی مہر کا لفظ بھی زبان تک نہیں لاتیں ۔ جناب جو اچھے بیٹے ہوتے ہیں وہ انہیں اتنا موقع ہی نہیں دیتے وہ بیوی کو عزت اور محبت دینے کے ساتھ ساتھ ان کا حق مہر ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی خوشدلی سے ادا کرتے ہیں ۔ اور یہی تصویر کا دوسرا رخ ہے ۔

پیر صاحب نے ہماری بات کا کوئی جواب نہیں دیا جو یقیناً ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی اس سے باقی لوگوں کی بھی تشفی ہوتی اور ان کا بھی اشکال دور ہوتا ۔ اس وقت یہ سب کچھ ہمیں اس لئے یاد آیا کہ ہم نے کہیں سے سنا کہ کچھ لوگ آج کے اس دور میں بھی نکاح کے موقع پر حق مہر ستائیس روپے پچاس پیسے رکھتے ہیں ۔ پتہ نہیں کون لوگ ہوں گے ہمارے تو علم نہیں ہیں ہمارے لیے تو یہ ستائیس روپے پچاس پیسے حق مہر والی بات بالکل نئی ہے ورنہ اب تک تو سوا یا ساڑھے بتیس روپے ہی سنتے آئے تھے اور بہت سے ایسے لوگوں کو جانتے بھی ہیں جن کے نکاح کے موقع پر حق مہر بتیس روپے آٹھ آنے مقرر کیا گیا ۔ جبکہ شریعت نے مرد پر عورت کا یہ حق اسے عزت اور تحفظ دینے کے لئے رکھا نا کہ اسے سوا بتیس روپے میں دو کوڑی کا کر کے رکھنے کے لئے ۔ پتہ نہیں برصغیر میں کون لایا تھا یہ دور کی کوڑی؟ اور غضب تو یہ ہے کہ اسے مہر فاطمی کا نام دیتے ہیں حالانکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر 500 درہم یا 131 تولے 4 ماشے چاندی یا 1550 گرام چاندی کے برابر مقرر ہؤا تھا ۔ اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ اپنی زرہ فروخت کر کے مہیا کیا تھا ۔ 500 درہم آج کے تقریباً چالیس ہزار پاکستانی روپے کے برابر ہیں اور اگر مذکورہ وزن کی چاندی کا حساب لگایا جائے تو وہ 80,000 پاکستانی روپے کے مساوی ہے مگر کچھ لوگ ساڑھے بتیس روپے کو ہی اپنے دین ایمان کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں ۔ باقی شادی کے موقع پر بارات والے دن دلہن کا پچاس ہزار کا میکپ والدین کی طرف سے ہوتا ہے تو لاکھوں کا جوڑا زیورات و دیگر لوازمات دولہا والوں کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں ۔ پھر ولیمے کا جوڑا اور کھانا ۔۔۔ اسی طرح لڑکی کے والدین پر جہیز اور بارات کے کھانے کا خرچہ ، غرض بوجھ تو دونوں ہی طرف تقریباً یکساں ہی پڑتا ہے پھر طرح طرح کی رسومات و خرافات پر اندھا دھند خرچہ کرنے کے بعد ساری شریعت کی تان حق مہر پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ ایک فرضی انتہائی قلیل بلکہ حقیر سی رقم کو شرع محمدی کا نام دے کر اپنے تئیں سنت کی پیروی سے اپنے ضمیر کو مطمئین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور کہیں بیٹی کے تحفظ کے نام پر اتنی بھاری رقم مہر میں لکھوائی جاتی ہے کہ مرد کے لئے اسے ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہو پاتا ۔ یعنی دونوں ہی طرف انتہا پرستی کا مظاہرہ، جبکہ اعتدال و توازن میں ہی برکت اور بھلائی ہے ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1855034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.