لارڈ میکالے نے 1835ء میں برصغیر کو برطانوی طرز کا
تعلیمی نظام دیا۔ جسے انگلش ایجوکیشن ایکٹ 1835 بھی کہا جاتا ہے ۔ مشرقی
فلسفہ پڑھنے والی اس قوم پر جب اچانک سے مغربی نظام مسلط کر دیا گیا تو یہ
ترقی کی راہ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ انگلش کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا
گیا اور انگریزی کو ہی میڈیم آف ایجوکیشن رکھا گیا۔
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان جو کہ انگریزی سے ناآشنا تھے ۔
انہیں اس نظام کی سمجھ آنے میں بھی کافی وقت لگا۔ اس سلسلے میں کافی ایسے
نام ہیں جنہوں نے مسلمان نوجوانوں کو ابھارا کہ انہیں زمانے کے ساتھ چلنا
چاہئیے ۔ جن میں سرسیداحمدخان قابلِ ذکر ہیں ۔
لیکن ایک طبقے نے اس کی تب بھی مخالفت کی ۔ انہوں نے اس زبان کو پڑھنے کو
ہی خلافِ شریعت اور خلافِ اسلام قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ سر سید احمد خان
جیسے ہیروز پر بھی فتوے لگے۔ آج تمام طبقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب وے بڑی
غلطی تھی کیونکہ ہندو جو کہ حصولِ علم میں آگے نکل گئے ، انہوں نے بعد میں
(دوران تقسیم اور بعد از تقسیم) کافی مشکلات پیدا کیں۔
پاکستان کے نظامِ تعلیم کو بہت ساری مشکلات درپیش ہیں ، جن میں سے مندرجہ
ذیل پر توجہ دینا اشد ضروری ہے:
1۔ یکسانیت کا فقدان
2- بغیر سمت کے تعلیم
3۔ فرسودہ نصاب
4۔ اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت کا فقدان
5۔ معیاری اساتذہ کی کمی
6۔ امتحانی نظام
7۔ حکومتی عدم دلچسپی
بغیر سمت کے تعلیم سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو
انتظامیہ اور حکومت سے نہیں بلکہ عام عوام سے منسلک ہے ۔ زیادہ تر طلباء کو
مختلف تعلیمی میدانوں کے بارے میں ککھ پتہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں نہ تو
سکولز اور کالجز میں کوئی رہنمائی کی جاتی ہے اور نہ ہی والدین اس ضمن میں
کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلباء یونیورسٹیز میں
آنے کے بعد بھی پروگرامز تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔
فرسودہ نصاب سے مراد پرانے دور کا گھسا پٹا سلیبس ہے۔ ساڑھے سات دہائیوں کے
گزرنے کے باوجود ابھی تک نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ جس کی وجہ سے
طلباء کانسیپٹس سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ رٹہ لگانے کی طرف رجحان رکھتے
ہیں۔ سلیبس میں موجود غیر ضروری چیزوں کو نکال باہر کرنا چاہئیے۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں معیاری اساتذہ کی بھی کمی ہے۔ ملک میں موجود ناکافی
وسائل کی وجہ سے وہ ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ہاں اس بندے کو
استاد کی سیٹ ملتی ہے جو دیگر تمام نوکریوں کے میدانوں میں ناکام ہو چکا
ہو۔ ایسا بندہ کیسے مستقبل کا معمار ہو سکتا ہے۔ اساتذہ کا انتخاب کرنے کا
عمل انتہائی شفاف اور متعلقہ ہونا چاہئیے۔
ان سب سے بڑھ کر سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ حکومت نہ تو اساتذہ
کو ان کے حقوق دیتی ہے اور نہ ہی انہیں اس کا موقع دیتی ہے کہ وہ مکمل توجہ
سے طلباء کو پڑھائیں ۔ انہیں امتحانی ڈیوٹی ، پولیو ڈیوٹی ، مردم شُماری
ڈیوٹی ، الیکشن ڈیوٹی اور نا جانے کن کن معاملات میں الجھا کے رکھتی ہے کہ
وہ اپنی بنیادی ڈیوٹی کو بھول کر دیگر کام کر رہا ہوتا۔
ان معاملات پر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگلے کالم میں مزید وضاحت
کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے تجاویز دی جائیں گی۔
(جاری ہے)
|