عدم برداشت..... ایک دوسرا پہلو

عدم برداشت کی وجوہات کا وہ پہلو جسے عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے. عدم برداشت کا خطرناک رجحان کس طرح ایک پرامن اور مثالی معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے.

سقراط کا کہنا تھا کہ برداشت معاشرے کی روح ہوتی ہے، معاشرے میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کہنا تھا اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے، یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے ؛لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے.

ہم اس وقت ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ جہاں گھروں کے دسترخوانوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک، عدم برداشت، انتشار اور بدامنی کی فضا قائم ہو چکی ہے. عدم برداشت اور انتشار کے ہوتے ہوئے، معاشرے میں امن، ایک سوالیہ نشان ہے اور امن کے بغیر معاشرے کا زندہ رہنا، ناممکن ہے.

بدقسمتی سے ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ اس عدم برداشت اور انتشار نے زندگیاں بھی نگلنی شروع کر دیں ہیں. اس کے نتیجے میں ہونے والی ہر انسانی موت، انا کی فتح ہوتی ہے. آپ کسی بھی قسم کے اختلاف کی بنیاد پر، کب ہجوم میں مارے جائیں؟ کیسے مارے جائیں؟ کیوں مارے جائیں؟ گواہی بھی کوئی نہیں دے گا.

اگر ہم تاریخ کی کتابوں کا دقیق مطالعہ کریں تو مؤرخین نے قبل از اسلام یا قدیم عرب معاشرے کا نقشہ کھینچا ہے ، اس کے مطابق، عرب میں صورتحال یہ تھی کہ اہل عرب مویشیوں کو پانی پلانے اور چرانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی تگ و دو میں جھگڑ پڑتے اور حتی کہ ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے. یہی وجہ ہے کہ، ڈاکٹر گستاؤلی بان جیسے مؤرخین قدیم عرب کا تعارف وحشی قوم کے طور پر کرواتے ہیں. اب تاریخ کے اوراق سے نظریں اٹھا کر زرا عمیق جائزہ اپنے معاشرے کا لیں. کیا یہاں لسانی، سیاسی یا نظریاتی اختلافات کو بنیاد بنا کر، دوسرے کی جان نہیں لی جاتی؟ اگر ہاں....! تو پھر کیا ہم تہذیب یافتہ ہیں؟ کیا ہم وحشی نہیں ہیں؟ ان سوالوں کا جواب، ہم سب نے خود سے کرنا ہے. شاید جواب مل جائے.

یہ تو ہو گیا ایک پہلو، جس پر عموماً تحاریر و تقاریر ہوتی رہتی ہیں کہ ہمارے ہاں فطرتی اختلافات کی بنیاد پر عدم برداشت ہے اور معاشرے میں انتشار اور بدامنی ہے. اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جسے عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے کہ فطرتی اختلافات کے علاوہ بھی کن وجوہات کی بنا پر، معاشرہ بدامنی کا شکار ہوتا ہے؟

معاشرے کا ایک بہت بڑا اور گہرا تعلق، معاش کے ساتھ ہوتا ہے اور معاش کا تعلق انسانی نفسیات کے ساتھ ہوتا ہے. معاشرے میں معاش کی صورت حال بہتر ہو یا ابتر، انسانی نفسیات پر بہرحال اس کا اثر ہوتا ہے. اب ہمارے ہاں چونکہ مجموعی طور پر، انفرادی سطح سے لے کر قومی سطح پر، معاش کی صورت حال انتہائی ابتر ہے، لہٰذا ہم لوگ فکر معاش میں ذہنی مریض بن چکے ہیں، اور ان باتوں کا غصہ ہم سڑک پر چلتے پھرتے بھی اتارتے رہتے ہیں جس کے عموماً بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں.

دوسرا، ہمارا معاشرہ متوازن نہیں ہے. عدم توازن کا شکار ہے. یہاں ایک طبقہ ایسا ہے کہ جس کے کتوں کے بھی ماہانہ اخراجات لاکھوں میں ہیں اور دوسرا طبقہ آٹے کی لائنوں میں لگا ہے. ایک طبقہ ایسا ہے کہ جس کے نزلے زکام کا علاج بھی بیرون ملک سے ہوتا ہے اور دوسرے طبقے کو تو اسی ملک کے ہسپتالوں میں بغیر سفارش کے داخلہ بھی نہیں ملتا. ایک طبقہ ایسا ہے کہ جس کے بچے بہتر اور بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دوسرے طبقے کے بچوں کے سکولوں میں گدھے، گھوڑے بندھے ہیں. اب جب کہ خوراک، صحت اور تعلیم جو کہ بنیادی حقوق ہیں وہی ایک بہت بڑے طبقے کو میسر نہیں تو اس بدترین استحصال کے ہوتے ہوئے، نچلا طبقہ، اوپر والے طبقے کو کیونکر برداشت کرے گا؟ وہ تو چیر پھاڑ دے گا. معاشرے کے امن کو بحال کرنے اور رکھنے کے لئے معاشرے میں توازن ضروری ہے.
 

Malik Zeeshan Abbas
About the Author: Malik Zeeshan Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.