میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
گزشتہ دنوں میری ایک تحریر " حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ "کے عنوان سے
شایع ہوئی جو اس سلسلے کے پہلے حصے یعنی حصہ اول پر موقوف تھا آج اس سلسلہ
کو آگے بڑھاتے ہوئے اس عظیم المرتبت شخصیت کی زندگی پر مزید روشنی ڈالنے کی
غرض سے اس کے حصہ دوئم کے ساتھ حاضر خدمت ہوگیا ہوں اللہ رب العزت سے دعا
ہے کہ وہ مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بار پھر ہم ذکر کریں گے شیخ المشائخ
طریقت و امام الائمہ اندر شریعت حضرت ابوالقاسم جنید بن محمد جنید بغدادی
علیہ الرحمہ کا جن کا کمال یہ تھا کہ آپ علیہ الرحمہ اہل ظاہر اور اہل باطن
دونوں میں یکساں مقبول تھے آپ علیہ الرحمہ کے اقوال اتنے بلند اور احوال اس
قدر کامل تھے کہ آپ علیہ الرحمہ کی امامت پر سارے اہل طریقت متفق تھے کسی
کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ کے ایک مرید کو
جسے ولایت کا درجہ بھی حاصل تھا شیطان نے گھیر لیا اور اس کے دماغ میں یہ
بات پیدا ہوگئی کہ اس نے اپنی محنت اور ریاضت سے ایک بلند مقام حاصل کرلیا
ہے گویا اس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور لوگ اس کے معتقد ہونا شروع ہوگئے
ایک دن وہ ایک آزمائش کے تحت اپنے ذہن میں ایک سوال لیکر آپ علیہ الرحمہ کی
خدمت میں حاضر ہوا آپ علیہ الرحمہ کو اس کے دل کا حال معلوم ہوچکا تھا اس
سے پہلے کہ وہ سوال کرے آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تجھے اپنے سوال کا
جواب زبانی چاہیئے یا معنوی ؟ تو اس نے کہا کہ میں دونوں جوابات سننا چاہتا
ہوں تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ زبانی جواب یہ ہے کہ میرا امتحان اور
میری آزمائش کرنے سے پہلے خود اپنی آزمائش کرلیتا تو اچھا تھا اپنا امتحان
لےلیتا تو یہاں آنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور معنوی جواب یہ ہے کہ میں تجھے
آج سے ولایت سے معزول کرتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ کی باتیں سن کر وہ محو
حیران ہوگیا اور اس کے چہرے کی کیفیت یکسر تبدیل ہونا شروع ہوگئی اس کا
چہرہ یکدم سیاہ ہوگیا اور وہ اپنے ہوس حواس میں نہ رہا جب کچھ دیر بعد اسے
ہوش آیا تو وہ نادم ہوکر آپ علیہ الرحمہ سے معافی کا خواستگار ہوگیا اور
اسے یہ احساس ہوگیا کہ اولیاء کے قلوب خزینئہ اسرار ہوتے ہیں اپنے مریدوں
کی کوئی کیفیت ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی آپ علیہ الرحمہ نے جب اس کو
نادم اور شرمندہ ہوتا ہوا دیکھا تو اس کو معاف کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے پھر آپ علیہ الرحمہ سے عرض کیا مجھے
میری پرانی کیفیت دوبارہ عطا کردیجیئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اس پر پھونک
ماری اور اسے کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ ملی اور وہ ائندہ کے لیئے مشائخ اور
اولیاء کے آزمائش اور امتحان سے تائب ہوگیا آپ نے دیکھا جب آپ کسی کے ہاتھ
میں اپنا ہاتھ دیتے ہیں یعنی کسی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں تو گویا آپ نے
اپنا سب کچھ اپنے مرشد لے حوالے کردیا ہوا ہوتا ہے اور آپ کے پیر و مرشد کی
نظر ہر وقت ہر جگہ اور ہر لمحہ آپ کے ساتھ ہوتی ہے اور آپ جب بھی کسی مشکل
گھڑی میں انہیں مدد کے لئے آواز دیتے ہیں تو وہ روحانی طور پر آپ کی مدد کے
لئے حاضر ہوجاتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جو شخص اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرلیتا
ہے تو پھر اس کا ہر عمل اللہ رب العزت کا عمل ہوتا ہے وہ ہر وہ کام کرتا ہے
جو اسے حکم ہوتا ہے اپنے نفس پر مکمل کنترول کرنا پڑتا ہے اپنی خوہشات
کومارنا پڑتا ہے اگر کہیں نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر یا غلطی سے کوئی خلاف
شرعہ کام سرزرد ہوجائے تو اللہ تعالی کی نارضگی اسی وقت سامنے آجاتی ہے ہم
ایک عام انسان ہونے کے ناطے دن بھر کئی کام خلاف شرعہ کرجاتے ہیں لیکن ہمیں
احساس تک نہیں ہوتا کیوں کہ ہم گناہگار لوگ ہیں اور اللہ تعالی کا قرب ہمیں
حاصل نہیں ہے اس لیئے ہماری پکڑ بھی اللہ تعالی اپنی مرضی اور مصلحت کے تحت
کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جعفر بن نصیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ ایک دفعہ میں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حآضر تھا تو آپ
علیہ الرحمہ نے مجھ سے فرمایا کہ آج میرا دل انجیر کھانے کی خواہش کرریا ہے
حضرت جعفر بن نصیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں ابھی
بازار جاکر انجیر لے آتا ہوں یہ کہکر میں اپنی نشست سے اٹھا تو آپ علیہ
الرحمہ نے فرمایا "یوں نہیں تم مجھ سے پیسے لےجائو " حضرت جعفر بن نصیر
علیہ الرحمہ نے عرض کی کہ حضور میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ میں انجیر خرید
کر لاسکتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ نہیں اور ایک
درہم دیتے ہوئے فرمایا کہ اے جعفر یاد رکھنا انجیر وزیری لانا حضرت جعفر بن
نصیر علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں بازار سے وزیری انجیر لیکر آیا اور حضرت
جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کردیا جب افطار کا وقت ہوا تو آپ
علیہ الرحمہ نے ایک انجیر اٹھائی اور جیسے ہی منہ میں رکھا اسی لمحہ اسے
باہر نکال دیا اور خدام سے فرمایا اس انجیر کو میرے سامنے سے ہٹا دو اور
حاضرین محفل کی ان انجیر سے تواضع کرو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جعفر بن نصیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ میں نے ڈرتے ہوئے عرض کیا کہ خود ایک درہم خرچ کرکے آپ علیہ الرحمہ نے
انجیر منگوائی کیوں کہ آپ علیہ الرحمہ کی خوہش تھی انجیر کھانے کی پھر
انکار کی کیا وجہ ہے ؟ میری بات سن کر حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی
آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور پھر فرمایا کہ
" میں نے جیسے ہی انجیر اپنے منہ میں رکھا تو مجھے غیب سے ندا آئی کہ اے
جنید علیہ الرحمہ تجھے شرم نہ آئی کہ تیرے نفس نے جس خواہش کا اظہار کیا تو
اسے پورا کرنے چلا تھا جبکہ تو اپنی نفسانی خواہشات کو میرے لئے ترک کیئے
ہوئے یے اور اب دوبارہ اپنے نفس کے تابع ہونا چایتا ہے ۔"
یہ ہے اللہ تعالی کے خاص اور مقرب بندوں کی شان اور اللہ تعالی نے جن بندوں
کو اہنے قرب کی دولت سے نواز رکھا ہے ان کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ رب
العزت کے احکامات کا تابع یوتا ہے ۔
میرے واجب الآحترام پڑھنے والوں جب ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی
کے حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب سرکار مدینہ
علیہ وسلم کا حکم ہوتا تو اہنا گھر بار مال و اسباب سب کچھ اپ علیہ وسلم کی
بارگاہ اقدس میں حاضر کردیتے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ ہمیں منزل کا اصل
راستہ سرکار علیہ وسلم کے ساتھ چلنے سے ہی ملے گا اور ویسے بھی جب ہم اپنا
یاتھ اللہ تعالی کے کسی خاص ولی کے ہاتھ میں دیتے ییں تو ہمارا ایمان اس پر
پختہ ہونا چاہیئے کہ آپ کی زندگی کا اصل راستہ اسی ولی کے ہاتھ میں ہے جو
آپ کو آپ کی حقیقی منزل تک پہنچانے میں آپ کی رہنمائی کریں گے اور اسی لئے
انہیں آپ اہنا مرشد کہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے ایک خاص
مرید نے آپ کے عشق میں اپنی ساری جائداد اور مال واسباب اللہ رب العزت کی
راہ میں خرچ کردی بس ایک مکان اپنی رہاش کی خاطر رہنے دیا جب حضرت جنید
بغدادی علیہ الرحمہ کو معلوم ہوا تو امتحان لینے کی غرض سے فرمایا کہ یہ
مکان کیوں رکھا ؟ تو اس مرید خاص نے جواب دینے کی بجائے وہ مکان بھی بیچ
دیا اور آپ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اب میں آپ کا
در چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا اور آپ علیہ الرحمہ سے کبھی جدا نہ ہوا یہاں
تک کہ اپنے مقصد حقیقی کو پالیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ دس برس تک میں اپنے دل کی نگرانی کرتا رہا اور پھر دس برس تک میرا دل
میری نگرانی کرتا رہا یوں بیس برس گزر گئے لیکن اس کے بعد دس برس تک نہ میں
نے دل کی کوئی خبر لی اور نہ ہی میرا دل کی طرف کوئی خیال گیا یوں تیس برس
گزر گئے لیکن اب میں سوائے حق کے کسی چیز کا مشاہدہ نہیں کرتا کیوں کہ جب
مومن کا اللہ رب العزت سے عشق ، قرب اور محبت اسقدر بڑھ جاتی ہے تو پھر
کوئی شق نہیں کہ اس بندے کا ہاتھ اللہ در حقیقیت اللہ تعالی کا ہاتھ ہوجاتا
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کتب سیر میں منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ علیہ
الرحمہ ایک مسجد میں تشریف فرما تھے جہاں کافی درویشوں نے آپ کو گھیرا ہوا
تھا اچانک وہاں ان درویشوں کے درمیان مومن کے روحانی قوت پر بحث چھڑ گئی
اور تمام درویش اپنے اپنے خیالات اظہار کررہے تھے ایک درویش نے کہا کہ مومن
کی روحانی قوت کا اندازہ لگانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ
ناممکن ہے لیکن میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں کہ جو اگر مسجد کے اس ستون
سے کہدے کہ آدھا سونے اور آدھا چاندی کا ہوجا تو وہ ہوجائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کہ اس درویش کا یہ دعوی سن کر میں نے جوں ہی مسجد کے ستون کی طرف دیکھا تو
واقعی آدھا سونے اور آدھا چاندی کا ہوچکا تھا درویش نے تو صرف یہ کہا تھا
کہ وہ ایک شخص کو جانتا ہے مگر قدرت نے یہ راز آپ علیہ الرحمہ پر ظاہر
کردیا کہ یہ آپ علیہ الرحمہ کی نگاہ کیمیاء کا اثر تھا کہ ایک ستون کی
ظاہری ساخت یکثر تبدیل ہوگئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام کی اس عظیم اور روحانی شخصیت
کے ذکر خیر کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ ہم اس سلسلہ کو یہاں اگلے حصے
تک کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ سلسلے میں ہم مزید حضرت جنید بغدادی
علیہ الرحمہ کے بارے پڑھیں گے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ایسے لوگوں کے
اعمال زندگی پڑھکر ان سے سبق سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|