عالمی یوم ماحولیات کی مناسبت سے تحفظ ماحول اور عالمی
ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو دنیا کے بڑے ممالک کا کردار انتہائی اہم
ہے۔اس تناظر میں چین میں ہر سطح پر ماحولیاتی تہذیب کی تعلیم کو بہت اہمیت
دی جا رہی ہے، چینی سماج نے اپنی زندگی میں معمولی باتوں سے شروعات کرتے
ہوئے، توانائی کے تحفظ اور ماحولیات کے تحفظ کی اچھی عادات کو اپنی زندگیوں
میں شامل کیا ہے ، اور سبز اور کم کاربن والی زندگی بسر کرنا سیکھ رہے۔چین
کے نزدیک عوام اور ادارے ماحولیاتی تہذیب کی وہ مضبوط بنیاد ہیں جس پر گرین
ترقی کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔حالیہ برسوں کے دوران اپنے ملک کو
خوبصورت بنانے کے لیے چینی عوام کی مسلسل کوششوں کی بدولت جنگلات کا رقبہ
وسیع ہوا ہے، ملک بھر کے رہائشی ماحول میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور معیشت
کو زیادہ پائیدار راستے پر گامزن رکھا گیا ہے۔ شجرکاری کی کوششوں کی بدولت
چین میں جنگلات کا رقبہ مجموعی رقبے کے 24 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
چین کی جنگلات کے تحفظ کی کوششوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی
ہے۔ 2017 میں، چین کے سائی ہان با جنگلات نے چیمپیئنز آف دی ارتھ ایوارڈ
جیتا، جو اقوام متحدہ کا اعلیٰ ترین ماحولیاتی اعزاز ہے۔اس دوران چین کی
جانب سے جنگلات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہدافی اقدامات کیے گئے اور
وسیع رقبے پر پھیلے تباہ شدہ جنگلات کو بحال بھی کیا گیا ہے۔چین نے
ماحولیاتی نظم و نسق اور تحفظ کی کوششوں کو فروغ دیتے ہوئے "بنی نوع انسان
اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی" کو چینی جدیدکاری کے لازمی تقاضوں میں ضم کیا
ہے، اور ایک خوبصورت چین کی تعمیر کے لئے سبز ترقی کو فروغ دیا ہے.چین نے
حالیہ برسوں میں ایکو گورننس اور گرین ڈیولپمنٹ میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ چین
کے بڑے شہروں میں پی ایم 2.5 کی مقدار میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران 56
فیصد کمی آئی ہے اور شدید آلودگی والے دنوں کی تعداد میں 87 فیصد کمی آئی
ہے۔ جی ڈی پی کے فی یونٹ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 34.4 فیصد کمی
آئی، اور اچھے پانی کے معیار کا تناسب 87.9 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
تحفظ ماحول کے لیےشہروں کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا گیا
ہے ۔ گرین رقبے میں نمایاں حد تک اضافے سے اسے شہروں کی تعمیراتی منصوبہ
بندی کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ صنعتوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے کم
اخراج کی حامل اور ماحول دوست صنعتوں کو ترجیح حاصل ہوئی ہے۔ آبی آلودگی سے
نمٹنے کے لئے وسائل کے موئثر استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ گندے پانی کی
نکاسی کے ساتھ ساتھ بارشی پانی کے تحفظ اور پانی صاف کرنے والے پلانٹس کو
نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ اسی طرح توانائی کی کم کھپت کی خاطر تمام بجلی
گھروں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔چین موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں گرین
ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے
توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اضافہ کیا ہے۔چین
اس وقت قابل تجدید توانائی آلات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ۔اس کے علاوہ
چین پن بجلی ، بائیوگیس اور ہوا سے توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے بھی دنیا
میں سرفہرست ہے ۔ ملک میں فضلے سے توانائی کی پیداوار کا ایک موئثر نظام
موجود ہے۔
چین میں ہائیڈروجن ایندھن کو فروغ دینے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور
حکومت نے یہ ہدف طے کیا ہے کہ 2025 تک ملک میں ہائیڈروجن ایندھن سے چلنے
والی گاڑیوں کی تعداد کو پچاس ہزار تک بڑھایا جائے گا جس سے ہر سال ایک
لاکھ سے دو لاکھ ٹن سبز ہائیڈروجن پیدا ہو گی۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروجن پیدا کرنے والا ملک ہے ۔چین کی کوشش ہے
کہ 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے اہداف کو پورا کرنے کے
لیے سبز ہائیڈروجن کی پیداوار کو بھرپور فروغ دیا جائے، جو قابل تجدید
توانائی کے ذرائع سے پیدا ہونے والا زیرو کاربن ایندھن ہے۔منصوبے کے مطابق
چین 2025 تک نسبتاً ایک جامع ہائیڈروجن توانائی کی صنعت کی ترقی کا نظام
قائم کرے گا، جس میں جدت طرازی کی صلاحیت میں نمایاں بہتری آئے گی ہے اور
بنیادی ٹیکنالوجیز اور مینوفیکچرنگ کے عمل میں مہارت حاصل کی جائے گی۔ چین
کا مقصد ہے کہ صاف توانائی سے تیار کردہ ہائیڈروجن کی پیداوار، ذخیرہ کرنے
اور نقل و حمل، مارکیٹ کی مسابقت کو بہتر بنانے، اور بنیادی طور پر صنعتی
بائی پروڈکٹ ہائیڈروجن اور گرین ہائیڈروجن پر مبنی سپلائی سسٹم تشکیل دیا
جائے۔یوں چین 2030 تک، ایک معقول اور منظم صنعتی ترتیب اور قابل تجدید
توانائی سے ہائیڈروجن کی پیداوار کے وسیع استعمال کی تلاش کر رہا ہے تاکہ
کاربن پیک کے ہدف کے لیے ٹھوس تعاون کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ اس وقت
ویسے بھی " کم کاربن ترقی" ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور موجودہ ماحول
دوست کوششوں کے تناظر میں اسے ایک ناگزیر عمل قرار دیا جا سکتا ہے ، ایک
بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے کہ ماحول دوست اور کم کاربن کی حامل ترقی
کا راستہ اختیار کیا جائے۔یوں دنیا کی مشترکہ کوششوں سے تخفیف کاربن کی
بدولت ماحول دوست رویے پروان چڑھ رہے ہیں جن میں چین جیسے بڑے ملک کا عملی
کردار قابل ستائش ہے۔
چین کی ان متاثر کن کامیابیوں کی ایک اہم وجہ "تحقیق اور ترقی" میں سرمایہ
کاری میں مسلسل اضافہ ہے۔چین میں تحقیقی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ
کاری ملک کی اختراع پر مبنی حکمت عملی کو فروغ دے رہی ہے جو موسمیاتی
تبدیلی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کی کوششوں کو آگے بڑھا
رہی ہے۔چین نے دیگر دنیا کے لیے بھی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے کہ مادی ترقی
اور تحفظ ماحول کے مابین ہم آہنگی سے آگے بڑھا جائے۔چین کے نزدیک کم کاربن
اور سبز ترقی کا حصول انسانی بقاء کے لیے لازم ہے ، اس مقصد کی خاطر مضبوط
کوششوں اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
|