از قلم: فاطمہ خان، تراپ،اٹک
موجودہ دور نفسا نفسی کا دور ہے۔ انسانیت کی قدر گرتی جارہی ہے۔ آج دو
لوگوں کو آپس میں اس لیے جھگڑے کے لیے اکسایا جاتا ہے کہ اس کی ویڈیو آپ ہی
کے موبائل سے وائرل ہو۔آج انسانیت عجب کسمپرسی کی حالت میں ہے۔چاروناچار ہم
سب اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ابنِ آدم اپنے اصل سے دور ہوچکا ہے یوں کہیے کہ
اپنے مقام سے گر چکا ہے۔ معاشرے کے ان تاریک ابواب کو اگر بابِ حیات سے
پھاڑ کے پھینک بھی دیں تو ہماری ارواح اس بے حِسی کو تاقیامت محسوس کریں گے۔
معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ میں بنتِ حوا بقلم خود اس دلدل سے بچنے کی
کوشش میں ہوں۔ ابن آدم ہیں کہ ہر حد سے گزر چکے ہیں۔ ملک میں نوجوان نسل کی
بے راہروی عروج پر ہے۔ دنیا دن بدن ترقی کرتی جارہی ہے۔
وہ خلاء میں زندگی کے آثار تلاش رہی ہے جبکہ پاکستان کے نوجوان شرم وحیا کا
لباس اتارے دولت کمانے کے حیلے کر رہے ہیں۔ مغرب میں ٹیکنالوجی کا درست
استعمال کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کا بھی استعمال صرف سستی
شہرت کے لیے کیا جارہا ہے۔ ابتدا میں دیکھا گیا کہ راتو رات چند لوگ اپنی
ویڈیوز کے وائرل ہونے پہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی
نوجوان تو نوجوان رہے، بزرگ،خواتین اور بچوں نے بھی مشہور ہونے کے لیے شرم
و حیا کو پسِ پشت ڈال دیا آج ایک غیر مرد کے ساتھ چپک کر تصاویر لینا،
ویڈیوز بنانا ایک عام سی بات ہے جبکہ انسان اپنی ابتدا بھول بیٹھا ہے۔
وہ بھول بیٹھا ہے کہ وہ آدم کی اولاد ہے۔ آدم نے کس طرح سجدوں میں رو رو کر
اپنے رب سے اپنی ایک بھول کی معافی مانگی۔ مگر ہم چونکہ اولادِ آدم ہیں،
امتِ محمد مصطفیﷺ ہیں تو ہم تو ذیادہ پارسا ہونے چاہیے تھے مگر ہم تو
عریانی کو اپنا وتیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ مردو خواتین مختصر لباس پہننا پسند
کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی شہرت اور دولت میں اضافے کا سبب ہے۔ جبکہ ان ہی
اعمال کا انجام بلاشبہ جہنم ہے۔ جو کہ ایک برا ٹھکانہ ہے۔
|