میں سمجھ سکتا ہوں

کتنا آسان ہے یہ چار الفاظ پر مشتمل جملہ کہہ دینا۔ اس کے پیچھے چُھپے معنٰی کو خواہ کوئ سمجھتا ہو یا نہیں مگر اس کا استعمال ہمارے معاشرے میں کثرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ یہ تو چھوٹا سا ایک جملہ ہے اور بظاہر سادہ سی ایک بات ہے اس کے پیچھے کیسا معنٰی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا روز مرّہ میں کیا جانے والا بے تُکا استعمال لوگوں کے دلوں سے اس کی حقیقی اہمیت کو بھُلا چکا ہے۔ چھوٹی سی کوئ بات ہو یا کوئ بہت بڑا مسئلہ ہو لوگوں کے پاس ایک ہی جواب ہے "میں سمجھ سکتا ہوں"۔ کسی کی گھڑی ٹوٹ جاۓ، کسی کی سائکل چوری ہو جاۓ، کوئ بیمار ہو جاۓ، کسی کو بخار ہو جاۓ ، کوئ انتقال کر جاۓ یا کسی کو مار دیا جاۓ، شادی کا مسئلہ ہو یا اولاد کا مسئلہ ہو، حالات کا مسئلہ ہو یا مال کا مسئلہ ہو، حتٰی کہ زندگی کا کوئ بھی مسئلہ ہو لوگوں کا جواب یہی رہے گا۔ افسوس! شکوہ یہ نہیں کہ اس کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے، بات یہ ہے کہ اس کی اہمیت کو مدّ نظر رکھتے ہوۓ اس کا استعمال کیا جاۓ۔ اس کا استعمال اس بات کا اعتراف ہے کہ گویا آپ بھی اس کیفیت یا اس جیسی کیفیت سے گزر چکے ہیں اور آپ ایسے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ اگرچہ ان کیفیات سے گزر چکے ہیں مگر لازم تو نہیں کہ دوسرا شخص بھی ایسے ہی گزر جاۓ۔ آپ کسی کے حال کو تو سمجھ جایئں گے لیکن آپ اس کی پریشانی کو اپنے سر نہیں لے سکتے۔ آپ کسی کی تکلیف کا اندازہ تب ہی لگا سکتے جب آپ اس کی جگہ پر ہوں اور مصیبت آپ کے سر۔ بعض اوقات اس جملے کے استعمال کا مقصد صرف اگلے کو یہ جتانا ہوتا ہے کہ ہاں میں بھی اس وقت سے گزرا ہوں۔ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سونے کے چمچ سے کھانے والے فاقہ کشوں سے یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ "میں سمجھ سکتا ہوں"۔ ہاں آپ سمجھ سکتے ہیں لیکن نہیں آپ نہیں سمجھ سکتے۔ امکانات دونوں ہیں مگر فرق ہے نیت کا، صرف جھوٹی ہمدردی کا اظہار دوسرے کی پریشانی کا مزاق بنانا ہے۔ اور اگر آپ واقعہ سمجھ سکتے ہیں تو مشورہ موجودہ حالات کے حساب سے دیجۓ نا کہ خود پر گزرے حالات کے حساب سے۔ اگر ہم راۓ دینے سے قبل ہی خود سے یہ سوال کر لیں "کیا واقع میں سمجھ سکتا ہوں؟" اور اگر جواب ہاں آۓ تو پھر آپ اپنے الفاظ سے کسی کے دکھ کا مداوا کر سکتے ہیں کیونکہ دل سے جو بات نکلتی ہے وہ یقیناً اثر رکھتی ہے۔
 

Syed Muhammad Zohaib
About the Author: Syed Muhammad Zohaib Read More Articles by Syed Muhammad Zohaib: 9 Articles with 4050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.