کسی درگاہ،کسی مسجد،کسی سیاسی پارٹی یا پھر کسی تنظیم کا
صدر،سکریٹری یاممبر منتخب ہونے پر مسلمانوں کے یہاں بڑا کام سمجھاجاتاہے
اور ان منتخب شدہ افرادکی گلپوشی،شالپوشی،تہنیت وتعظیم کرنے کیلئے بڑے بڑے
جلسوں کاانعقادکیاجاتاہے،جبکہ ان لوگوں کا منتخب ہونا کوئی بڑا کارنامہ
نہیں ہے،نہ ہی ان عہدوں سے عام طورپر یہ لوگ قوم وملت کی خدمت کرنا اپنی
ذمہ داری سمجھتے ہیں۔چند لوگ اپنے مفادات کی خاطر ان لوگوں کی گلپوشی
وشالپوشی کیلئے نہ صرف قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ ہزاروں روپئے بھی ضائع
کرتے ہیں،اس سے اُمت مسلمہ کو کوئی بڑا فائدہ نہیں ہے۔وہیں دوسری جانب اُمت
مسلمہ کے سینکڑوں بچے ایس ایس ایل سی،بارہویں جماعت کے علاوہ مختلف
امتحانات میں نمایاں کاگردگی کرتے ہیں اور کئی ایسے نوجوان بھی ہیں جو
سرکاری ملازمتیں حاصل کرتے ہیں یاپھر اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے الگ الگ
شعبوں میں نام کماتے ہیں۔ہمارے درمیان کئی کھلاڑی بھی ہیں جو ریاستی یا
قومی سطح پر اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرتے ہیں،لیکن ان باصلاحیت نئی نسلوں
اور طلباء کی ہمت افزائی کرنے کیلئے مسلمانوں کے پاس نہ وقت ہے نہ پیسہ
ہے۔ان باصلاحیت بچوں کی ہمت افزائی کرنے کیلئے نہ کوئی تہنیتی پروگرام
منعقدکیاجاتاہے نہ ہی ان کی کوئی گلپوشی کرتے ہوئے ان کی محنت کا صلہ دینا
چاہتاہے۔چور اچکے،فالتو کام کرنےوالے لوگ ہمارے اسٹیجوں کی رونق بن رہے
ہیں،جنہیں الف ب بھی نہیں معلوم اُن کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے
ہیں۔درحقیقت آج بھی مسلمان تعلیم اور تعلیم یافتہ افرادکی اہمیت نہیں جان
سکے ہیں،نہ ہی انہیں ان تعلیم یافتہ افرادکی سرپرستی درکارہے۔مسجدوں کی
کمیٹیوں کو دیکھیں یاپھرمیونسپل یا کارپوریشن میں نمائندگی کرنےوالے
افرادکو دیکھیں کہ وہ کس حد تک تعلیم یافتہ ہوتے ہیں،بیشتر نمائندے تو
پڑھنا لکھنابھی نہیں جانتے اور جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں اُنہیں کوئی قیادت کی
ذمہ داری نہیں دیتا۔آج اگر مسلمانوں کی پسماندگی کا اہم سبب کچھ ہے تو وہ
یہ کہ مسلمانوں نے تعلیم کی قدرنہیں کی ہے،بلکہ ان کے نزدیک چھچورے لوگ ہی
ان کے قائد بننے کے لائق ہیں یا پھر پیسے والے لوگوں کی عزت ان کے سامنے
ہے۔جب قوم کی جانب سےتعلیم حاصل کررہے طلباء کی عزت افزائی نہیں کی جاتی
ہے،باصلاحیت نوجوانوں کی شناخت نہیں کی جاتی تو ظاہرسی بات ہے کہ یہ طلباء
ونوجوان آگے چل کر قومی وملّی مسائل سے دورہوجائینگے۔شکوہ اُن لوگوں سے
نہیں کرنا چاہیے جو تعلیمی طورپر پسماندہ ہیں یاپھر تعلیم کی اہمیت نہیں
جانتے،بلکہ شکوہ اُن لوگوں سے ہونا چاہیے جو تعلیم یافتہ ہوکر مختلف
تنظیموں واداروں میں کام تو کررہے ہیں مگر تعلیم یافتہ لوگوں کی اہمیت
کونظراندازکرتے ہیں۔آج جو بچے اور نوجوان اپنی صلاحیتوں کو لوہامنواچکے
ہیں،اگر اُن بچوں اور نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جاتی ہے تو یقیناً یہ بچے
آگے چل کر قوم کے قریب ہونگے،قوم کے مسائل کو جانیں گے اور قوم کیلئے کچھ
کام کرنے کا جذبہ رکھیں گے۔ |