پُرامن پاکستان ہم سب کی ضرورت ہے

سوات میں حالیہ دہشت گردی کے واقعہ کے تناظر میں خیبر پختونخوا پولیس کے چیف اختر حیات خان نے سوات میں میڈیا کے نمائندوں سے اہم ملاقات کی اور واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالاکنڈ پولیس نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے، سوات پولیس کو ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مزید مضبوط کر تے ہوئے اہم اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں، سوات پولیس لائنز میں مالاکنڈ ریجن کے افسروں اور جوانوں کے لئے منعقدہ دربار کے موقع پر انہوں نے کہا کہ سوات سمیت خیبر پختونخوا میں امن کا قیام اور اس کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کو مزید کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد ہمارے صوبے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں بڑھیں لیکن بروقت اقدامات سے باجوڑ اور دیر کی سرحد پر ملک دشمنوں کوبھاری نقصان پہنچا کر دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا،ہر سال سوات کے سیاحتی سیزن کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے لئے پڑوسی ملک سے ٹیم تشکیل دئے جاتے ہیں،اس سال بھی باجوڑاور دیر کی جانب سے سوات میں بد امنی کی کوششیں کی گئ، دہشت گرد خیبر اور مردان سے ہوتے ہوئے بونیر کے راستے ایلم کی پہاڑی سے سوات میں داخل ہوئے لیکن پولیس فورس کی جانب سے امن دشمنوں کو بروقت اور بھرپور جواب دیا گیا، آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے سوات میں حالیہ دہشت گردی واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے دہشت گردی واقعات میں ملوث اہم ملزم رفیع اللہ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ 23 مئی کو منگلور کے علاقے بنجوٹ میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے مقامی شخص جمدالی خان کو شہید کیا ، جس پر دہشت گردوں کے خلاف پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک اہلکار بھی زخمی ہوگیا ،کئی گھنٹے اپریشن کے دوران حملہ آور دہشت گرد روپوش ہوئے لیکن سی ٹی ڈی نے تعاقب کرکے دہشت گردوں کے سہولت کار عصمت اللہ سمیت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث اہم ملزم رفیع اللہ عرف جواد سکنہ چارباغ کو بھی گرفتار کرلیا ،آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ گروپ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں ملوث ہے جبکہ ایک دہشت گرد ذاکراللہ کی تلاش جاری ہے ،رفیع اللہ کے بارے میں میڈیا کو بتایا گیا کہ وہ 2012 میں افغانستان منتقل ہوگیا تھا جس نے بعد میں جعلی دستاویزات پر خود کو مردان کے ایک شہری کا بیٹا ظاہر کرکے دستاویزات بنائے اور کئی بار تورخم بارڈر سے پاکستان آیا اور پھر واپس گیا، رفیع اللہ کے جرائم کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے سابق وی ڈی سی عبدالقیوم اور عبدالرزاق اور محمد شیرین کوشہید کیا،اس گروپ نے سابق ممبران اسمبلی کو بھتہ نہ دینے پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں حالیہ دنوں سوات میں امن کیلئے توانا آواز اُٹھانے والے اولسی پاسون کے رہنما بھی شامل تھے،آئی جی نے مزید بتایا کہ تحقیقات کے دوران یہ افسوسناک انکشاف بھی ہوا کہ مقامی باشندے اورکچھ سرکاری ملازمین ان عسکریت پسندوں کے سہولت کاری کرتے ہیں ،آئی جی نے مزید کہا کہ اس خطے پر جو مشکل وقت گزرا ہے میں اس سے بذات خود واقف ہوں اور ان مسائل کے حل کیلئے پولیس فورس کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے مختلف ٹریننگ کا انعقاد کیا جارہا ہے،سوات میں سیاحت کی فروغ کیلئے مختلف سیاحتی مقامات کالام، مالم جبہ اور دیگر علاقوں میں سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات جاری ہیں،پولیس ملازمین کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اختر حیات خان نے کہا کہ اکثریتی پولیس اہلکار دس سال سروس کے دوران شہید ہوگئے ہیں جن میں سے 332 اہلکار ملاکنڈ ڈویژن میں شہید ہوئے ،شہداءکے خاندانوں کیلئے پیکج کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہداء کی خاندانوں کیلئے مزید پیکیجز بھی لے کر آر ہے ہیں، شہداء کے بچوں کی شادی کے موقع پر ان کو ایک لاکھ روپے معاوضہ بھی دیا جائے گا ، چاہتا ہوں کہ پولیس فورس مضبوط ہو تاکہ دہشت گردی اور دیگر واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایاجا سکے انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ سب پر واضح ہونا چاہئے کہ ہم خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کریں گے،پولیس سربراہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس کے ہر افسر اور جوان نے گذشتہ دو عشروں کے دوران نامساعد حالات کے باوجود اپنے فرائض توقعات سے بڑھ کر ادا کئے اور ہر رینک کے افسر اور جوان نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرکے امن بحال کیا، سوات کی معیشت ٹورازم سے منسلک ہے ہر سال گرمی کے سیزن میں ملک کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں جن کی حفاظت کیلئے ٹوارزم پولیسنگ کے حوالے مالاکنڈ پولیس کے انتظامات نہایت ہی تسلی بخش ہیں۔

سوات میں حالیہ دنوں ایک بار پھر دہشت گردی سے منسلک پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے لوگوں میں پھر سے خدشات سر اُٹھانے لگے کہ کہیں انہیں پھر سے بے گھر نہ ہونا پڑے، کبل میں واقع تھانہ سی ٹی ڈی میں پیش آنے والا واقعہ جسے عوامی سطح پر دہشت گردی کا واقعہ گردانا جاتا ہے جبکہ حکام اسے غفلت قرار دیتے ہیں اس واقعہ میں 18 کے قریب افراد جاں بحق اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ، اس کے بعد سنگوٹہ پبلک سکول میں ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں معصوم طلبہ پرفائرنگ کا واقعہ جس میں ایک طالبہ جاں بحق اور خاتون ٹیچر سمیت پانچ طلبہ زخمی ہوئے ۔

پھر اس کے بعد منگلور کے علاقے بنجوٹ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ پیش آیا جس میں فائرنگ کے تبادلہ میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا اور ابتدائی طورپر عسکریت پسندوں کے فرار ہونے سے پولیس حکام ناکامی سے دوچار ہوئے لیکن بعد میں بنجوٹ واقعہ میں ملوث افراد کو پشاور میں ایک ہسپتال سے علاج کرانے کے دوران گرفتار کرلیا گیا جنہیں آئی جی خیبر پختونخوا نے اپنے میڈیا ٹاک کے دوران میڈیا کے سامنے پیش کردیا۔ آئی جی اختر حیات کے مطابق سوات میں ہر سال سیاحتی سیزن تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کیلئے پڑوسی ملک افغانستان میں سازش کی جال تیار کی جاتی ہے توایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عسکریت پسندی کی جڑی کاٹنے کیلئے بروقت موثر اقدامات کئے جائیں اور جو سہولت کاری مقامی سطح پر کی جاتی ہے اس کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ جو افراد اس وقت تک ملوث پائے گئے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کیلئے کوئی اس بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ امن کا قیام ہم سب کی ضرورت ہے جس کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو کردار ادا کرنا چاہئے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 62 Articles with 49442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.