میں کہاں جاؤں

برین ڈرین تو اس ملک کا ایک عرصے سے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ بہتر روزگار کی تلاش میں کسی دوسرے ملک چلے جاتے تھے۔ستر کی دہائی میں جب یہ کام شروع ہوا تو ابتدا میں ہمارے یہاں سے جانے والے مزدور لوگ تھے۔باہر سے پیسے آئے اور ان جانے والے لوگوں کے گھر والوں کا رہن سہن بدلاتو دوسروں کو بھی باہر جانے کا شوق ہوا یوں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی غیر ممالک میں آباد ہوئے۔پھر ایک وقت آیا کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان دنیا بھر کے ممالک کو عازم سفر ہوئے کچھ پڑھنے گئے اورپڑھنے کے بعد زیادہ تر نے ملازمت کے لئے یہاں آنا پسند نہ کیا، وہیں کے ہو رہے۔ دوسرے وہ پڑھے لکھے جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی اور جن پر حکومت پاکستان کا بے پناہ سرمایہ خرچ ہوا بھی یہ جان کر کہ وہاں آمدن معقول ہی نہیں یہاں کی آمدن سے کئی گنا ہے، ملک چھوڑ کر چلے گئے۔برطانیہ، امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا، عرب امارات اور یورپی ممالک کو پاکستان نے بہترین مردان کار دئیے ہیں۔ لیکن وہ سب لوگ وطن کی محبت میں جب بھی موقع ملتا، واپس آنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور موقع ملتے ہی وطن کی مٹی انہیں کھینچ لاتی رہی ہے۔ وہ سارا سال اپنے خاندان کو اخراجات کے لئے زر مبادلہ بھی بھیجتے ہیں جو ہماری قومی آمدن کا ایک بڑا حصہ ہے ۔

مگر اب تو حد ہو گئی ہے۔ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس ملک کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔آدمی جو سوچتا ہے وہ کہہ نہیں سکتا، لکھ نہیں سکتا۔ لکھنے والے عجیب ھالت میں ہیں، جو محسوس کرتے ہیں نہ لکھیں تو ان کی ذات اک کرب کے اندر اور لکھ دیں تو جیل کے اندر۔ویسے کرب بھی ایک ذہنی جیل ہے ۔فیض نے کہا تھا کہ اب دل کی قیمت یا دارورسن یا خواری ہے۔ہم خوار ہو رہے ہیں کہ شاید اب یہی مقدر ہے۔ہر طرف افراتفری ہے۔ ڈر ہے، سہمی سہمی فضا ہے ۔ جانے کون کس کو کس الزام میں دھر لے۔لوگ اب کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں۔ جن کے پاس سرمائے کی فراوانی ہے وہ تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ اب برین نہیں سرمایہ اس ملک سے جا رہا ہے۔ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ اب باہر بیٹھے لوگ بھی واپس آنے کا سوچنا بند کر چکے ہیں۔ میرے جیسے بہت سے لوگ جو صرف کڑھ سکتے ہیں، وہ کہاں جائیں۔ وہ کہیں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہیں ہر حال میں یہاں کے حالات بھگتنیں ہیں۔ان کے نزدیک دیار غیر کی ٹھوکروں سے وطن کی جیل ہی بہتر ہے۔ اس لئے کہ میرے جیسے کسی حال میں بھی یہ ملک نہ چھوڑنا چاہتے ہیں نہ چھوڑ سکتے ہیں۔

میرا تعلق کسی سیاسی فکر سے نہیں ، میں سیاست پر لکھتا بھی بہت کم ہوں ۔لیکن آدمی جس معاشرے میں زندہ ہے اس سے کیسے بالکل لا تعلق رہ سکتا ہے۔ زمان پارک سے جن آٹھ دس دہشت گردوں کو پکڑنے کی نوید دی جا رہی ہے میری عقل میں وہ بات نہیں آتی۔ ان میں زیادہ تر سابق وزیر ہیں۔ وہ کیسے دہشت گرد ہو گئے اس لئے کہ اب اقتدار ان کی پاس نہیں۔ ذاتی طور پر میں فقط ایک نوجوان حسان نیازی کو جانتا ہوں۔ ایک انتہائی نفیس بچہ، پٹھان ہے ، تھوڑا گرم مزاج ہے، کچھ جذباتی ہے مگر یہ تو کوئی برائی نہیں، سارے پٹھان ہی ایسے ہوتے ہیں۔ چند سال سے وکالت کر رہا ہے اور اس کا وکالت کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا اس کے لئے لڑا، اس کی آواز بنا۔وہ لوگ جو بے اثر تھے اور کوئی ان کی بات سنتا نہ تھا وہ ان کی آواز بنا۔عمران خان اس کا سگا ماموں بھی ہے اور قائد بھی۔ اسے اس لئے دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جگہ قائم ہے۔مگر وہ قائم رہے گا۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایک ڈاکٹر صاحب میرے اچھے تعلقات والے ہیں ۔ ایک دو پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔مجھے اپنی صحت کے حوالے ان سے بات کرنی پڑتی ہے۔اس دفعہ میں نے ملنے کے لئے ان کے ہسپتال فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنی بیگم اور بچوں سمیت لا پتہ ہیں۔ یا تو وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے ہیں یا پولیس کے ڈر سے چھپ گئے ہیں۔ یہ ڈر یہ خوف یا کوئی جبراور وہ بھی اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی ملک میں، حقیقت میں یہی دہشت گردی ہے جو حکومتی سطح پر جاری و ساری ہے۔ اچھی حکومتوں کا کام لوگوں کو ایسے ڈر اور خوف سے دور رکھنا ہوتا ہے، نجات دلانا ہوتاہے، مگر اچھی حکومت ہو تب۔

تاریخ پھر اپنا آپ دھرا رہی ہے۔ اہل فکر لرزاں ہے کہ پھر کوئی نیا حادثہ نہ ہو جائے۔ ایسے ہی حالات تھے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو ذاتی پسند اور نا پسند کی بنا پر روکا گیا۔ احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ایسے ہی جلوس باقاعدہ نکلوائے گئے کہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اسی طرح سرکاری ذرائع استعمال کرتے ہوئے علما اورتعلیمی اداروں کواستعمال کیا گیا، اقلیت کو اقتدار کے سہارے عوام سے لڑایا گیاوہ نوجوان جو محب وطن تھے ، وطن کی مٹی کے وفادار تھے ،انہیں بغیر وجہ دہشت گرد قرار دیا گیا ، ان پر جبر کیا گیا۔ جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر مجبوری میں وہی نوجوان بغاوت پر اتر آئے، مکتی باہنی کی شکل اختیار کر گئے۔ وہ ہماری سرزمین تھی جہاں اپنے اپنوں سے لڑے ۔ اپنوں نے اپنوں کو شکست سے دو چار کیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ ریگل چوک پر ایک لیڈر کہہ رہے تھے کہ سمجھ نہیں آتی اتنی بڑی فوج کیسے ہتھیار ڈال گئی۔ملک کیسے دو لخت ہو گیا۔ان کی باتیں سن کر میں رو رہا تھا، اس چوک میں ہزاروں لوگ رو رہے تھے۔مگر وقت گزر چکا تھا۔ طاقت کے نشے میں ہم نے اپنا اتنا زیادہ نقصان کر لیا تھا کہ جس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ ایسا کیوں ہوا، سیدھی سی بات ہے فوج اپنے لوگوں پر لشکر کشی نہیں کر سکتی مگر فوج نے کی ۔ اپنے ہی ملک کو تسخیر نہیں کر سکتی مگر کوشش ہوئی۔فوج کا کام سرحدوں پر ہے ۔ سرحدوں کے اندر نہیں۔ ہر ادارے کی اپنی حدود ہیں اور حدود پار کرنا سب کے لئے پریشانی باعث ہوتا ہے اور کئی مسائل پیدا کرتا ہے۔بنگلہ دیش جیسے سانحے جنم لیتے ہیں افسوس آج نفرت کا زہر ایک دفعہ پھر ہمارے اندر پھیل گیا ہے ہم اس کا تریاق ڈھونڈھ نہیں رہے۔ہمارے رویے کشمیر پر ہمارے موقف کو کمزور کر رہے ہیں۔ ہمیں بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ کے بعد پنجاب کی بگڑتی صورت حال نظر نہیں آرہی۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا شدید برا ہوا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ شر پسندوں نے یادگاروں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی جو ظلم ہے، یہ چیزیں تو ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں مگرکیا کیا جائے ہم اثاثے برباد کرکے خوش ہوتے ہیں، یہ ہمارا قومی وطیرہ ہے اور ہجوم قابل کنٹرول نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ہجوم کی اس سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور ہم کر رہے ہیں۔ حکمرانوں سے میری درخواست ہے کہ عوام میں ا س نفرت کی وجہ بھی تلاش کریں اور کچھ آنسو ان کے لئے بھی بہا دیں کہ جو ماؤں کے لال اس دن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جو پولیس کی گولیوں اور بربریت کا شکار ہوئے۔ اﷲتعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500543 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More