نہ ہم یقین کی جانب نہ ہم گماں کی طرف

وطن عزیز میں ایک عجیب ہوا چلی ہوئی ہے بلکہ آندھی اُڑی ہوئی ہے، طوفان اٹھا ہوا ہے ۔ الزامات کی بوچھاڑہے ہر ایک دوسرے کو مجرم ، غدار اور خدا جانے کیا کیا کہہ رہا ہے کس کی بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ، عوام اس کا بڑا درست تجزیہ اور فیصلہ کر رہے ہیں۔ لیکن ملک و قوم اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں عوام الزامات نہیں اقدامات کی توقع کر رہے ہیں مگر ہو یہ رہا ہے کہ یہاں ہر ایک دوسرے کو غدار کہنے سے ہی فارغ نہیں ہے۔ بات دراصل وہ نہیں ہوتی جو ہمارے لیڈر کہہ رہے ہوتے ہیں بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے اقتدار کی فکر ہے یعنی یا حصول اقتدار یا دوام اقتدار کی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ساری دوڑ دھوپ میں نہ عوام کی فکر ہے نہ ملکی و قومی ترقی کی۔ قومی سطح پر تو ہم نے اپنے قومی تشخص ، پہچان اور نظریے کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ حیرت ہے کہ جو شخص خود کو عظیم مدبر ظاہر کرنا چاہے وہ نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ اور قائداعظم کے نظریات پر تبصرہ شروع کر دیتا ہے اور بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے، پاکستان کا مطلب کیا لاَ اِ لَہَ اِ لَا اللہ کے نعرے سے انکار کر دیتا ہے بلکہ یہ بھی فرما دیتا ہے کہ قا ئد نے یہ نعرہ کبھی نہیں لگا یا، تو عرض ہے کہ نعرے لیڈر نہیں عوام لگاتے ہیں اور لیڈر کے نظریات کے مطابق لگاتے ہیں ویسے بھی کب قائداعظم نے روسٹرم توڑ کر، آستین پھاڑ کے، چیختے چنگھاڑتے تقریر کی اورکب نعرے لگائے۔ کاش ہمارے سیاستدانوں نے ان جیسی پر سکون اور موثر تقریر کرنا سیکھی ہوتی اور کیاقائداعظم نے کسی جلسے میں کبھی کسی کو یہ نعرہ لگانے سے منع کیا تھا۔ برصغیر کے مسلمان قائداعظم کے پیچھے اس لیے چلے تھے اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر چلے تھے کہ وہ اپنا ایک الگ تشخص چاہتے تھے اس لیے کہ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی ملک اور حکومت کے طلب گار تھے جہاں بقول قائد کے وہ اسلامی اصولوں کو آزماسکیں اور یہ صرف قائد کی ہی نہیں بلکہ برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی خواہش تھی ۔آج ہمارے عوام نہیں لیکن ہمارے نام نہاد لیڈر اس چیز کو متنازع بنا رہے ہیں اور خود کو محب وطن بھی کہہ رہے ہیں۔حب الوطنی اپنے نظریے سے انحراف نہیں بلکہ اس کا اعتراف ہے روایات اور تہذیب کی پاسداری ہے لیکن ہمارے لیڈر سے لے کر ایک عام آدمی تک سب اس انحراف کا ارتکاب کر رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو کراچی آج بھی روشنیوں کا شہر ہوتا جہاں آج موت کا ننگا رقص جاری ہے ہر سیاسی پارٹی دوسری پارٹی کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہے اور ہر ایک امن کا نعرہ لگانے کے باوجود امن کی خواہش سے عاری ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو کئی مہینوں سے جاری یہ قتل و غارت بند ہو چکا ہو تا ،دراصل یہاں عام آدمی ہی استعمال ہوتا ہے اور عام آدمی ہی مرتا ہے اور یہی عام آدمی کا قصور ہے کہ وہ خاص آدمی کے اشارے پر سب کچھ کر گزرتا ہے۔ ہر ایک کو اپنے گناہ کا علم ہے لیکن پھر بھی دوسرے کو بیوقوف سمجھتے ہوئے اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔ حکومت جانتی ہے کہ گناہ گار کون ہے اور مجرم کون لیکن اسکے باوجود آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ ایک کراچی پر ہی کیا موقوف ملک میں ہر جگہ امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے بلوچستان کو ہی لیجیے اس مسئلے کو حل کرنے کی کتنی مخلصانہ کوشش ہوئی ہے کیا کسی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے ۔ یہ تو سیاسی صورت حال ہے جہاں حکومت کی جوڑ توڑ آڑ ے آتی ہے اور اسی جوڑ توڑ سے نا فرصتی نے حکومت کی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کوہی لیجئے، بڑھتی ہی جا رہی ہے لیکن تدارک کا کوئی امکان اور کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آرہی ابھی ہم ڈیموں کے لیے انتخابِ مقام پر الجھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف میلہ لوٹا جا رہا ہے ۔کرپشن ہے کہ اپنے عروج پر ہے اور ببانگ دُہل ہے، یہاں بھی ہر ایک کرپشن سے نالاں ہے اور کرپٹ سے بھی۔ راشی، مرتشی کے دوزخ میں جانے کا یقین بھی ہے اور رشوت کی برائی کا اعتراف بھی ہے لیکن دوسرے کے لیے اور شاید اسی مصرفیت کی وجہ سے اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت نہیں ورنہ اس لعنت پر قابو پانا اگر مشکل ہے بھی تو ناممکن تو نہیں لیکن مسئلہ وہی یعنی خلوص کی کمی۔

اب ذرامعاشرے میں معاشرتی اقدار کی طرف دیکھئے تو وہ بھی معلوم نہیں کتنی تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ خلط ملط کر دی گئی ہیں شادی بیاہ ہی کو لیجئے شادی پاکستان میں ہوتی ہے لیکن رسوم ہندوانہ حالانکہ پنجاب کی رسمیں خیبر پختونخوا اور سندھ کی بلوچستان میں نہیں اپنائی جاتیں ایسا کرتے ہوئے اُن کی اقدار آڑے آتی ہیں لیکن مکمل غیر رسمیں باوجود اس کے کہ وہ دولت کے ضیاع کا باعث ہیں اپنا لی جاتی ہیں ۔ لباس میں جدیدیت میں کوئی حرج نہیں لیکن پورا لباس ہی غیروں کا اپنا لینا کہاں کا انصاف ہے لیکن ہم نے لباس جسے اللہ نے ستر پوشی اور زیب و زینت دونوں کے لیے اتارا صرف زیب و زینت کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہاں بھی ہر ایک لباس کے اصل مقصد سے واقف ہے اور دوسرے پر اعتراض بھی کر رہا ہے اگر چہ اپنے بس کی حد تک وہ خود بھی مجرم ہے یہ تو صرف چند ایک پہلو تھے جن کا تجزیہ کیا گیا ورنہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حد تک مجرم ہے کیونکہ ہم نے ایک نیا ملک بنایا تھا، یہاں ہم ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے تھے بالکل اُس نئے گھر کی طرح جسے ہم بہترین طور پر سجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے وسائل کے مطابق ایسا کرتے بھی ہیں لیکن نیا ملک بنانے کے لیے جس طرح ہم نے آگ اور خون کے سمندر پار کیے ہم نے اُس کو بھلا کر صرف اپنی ذات کو ملک پر ترجیح دی اور آج تک ہم یہی کر رہے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی بساط کے مطابق برا برکا مجرم ہے اور جب تک ہم اپنے جرم کا اعتراف نہیں کر لیں گے بنائو اور سدھار کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔ سیاست اور نظریے سے لے کر ایک عام آدمی کے معمولات تک ہر پہلوکو نظر میں رکھ کر اُسے سدھار نے کی جب تک کوشش نہیں کی جائے گی اور ہر شخص نہ کرے گا تو اسی طرح ہم دوسروں کے دست نگر اور محتاج رہیں گے اور معاشرے میں تضادات اور پھر فسادات جنم لیتے رہیں گے ۔ دوسروں کو موردالزام ٹھہراکر خود کی پارسائی کا پر چار معاملے کا حل نہیں کیونکہ خود ہم دل میں جانتے ہیں کہ ہم سچے نہیں ہیں اور اسی لیے ہم اپنی زبان میں وہ اثر نہیں پاتے جو ہمارے الفاظ کی تاثیر ہونی چاہیے ۔ ہم نے اگر اپنے معاشر ے کی ازسر نو تعمیر نہ کی یا مرمت کا کام ہنگامی اور بنیادی طور پر نہ کیا تو ہم آگے بھی عرصہ دراز تک مسائل سے دوچار رہیں گے۔ ہاں اپنی ذات اور اپنے ادارے کو اپنا پاکستان سمجھ کر ٹھیک کرنے کی ذمہ داری لے لیں تو پورا پاکستان نکھر اور سدھر کر سامنے آئے گا کیونکہ یہاں نہ صلاحیت کی کمی ہے نہ زورِبازوکی ،کمی ہے تو صرف یقین اور خلوص کی اور اسی کمی پر قابو پانا ہی ہماری فتح کا باعث ہوگا ۔دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی ضرور کریں لیکن اپنی خامی کی نشاندہی سے بھی آگے بڑھ کر اسے ختم کرنا ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے ۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.