میاں بیوی کے رشتے بہت ہی حساس
اور نازک ہوتے ہیں ۔ بعض دفعہ اس کی نزاکت کا لحاظ نہ کیا جائے تو یہ رشتہ
ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتاہے اور خراب ہوجاتاہے ۔ یعنی شوہر وبیوی کے درمیان کی
بڑھتی کشید گی طلاق کالباس پہن لیتی ہے ۔ پھر بیوی کسی کی بیوی نہیں رہ
جاتی اور نہ ہی شوہر کسی کا شوہر رہ جاتاہے ۔یہ بات ایسی ہے کہ جس کاتعلق
نہ تو درسی کتابوں سے ہے اور نہ ہی اسکول کالجز کے ماحول سے ، بلکہ یہ
اخلاقی کاروبار انسانی معاشرے اور سماج کاحصہ ہیں ، جس کا انسان کبھی کبھار
تو صحیح استعمال کرتاہے اور کبھی وہ اسلام کے اس سنہر ے اصول کا یاتو غلط
مطلب نکالتاہے یاپھر miss useکرتاہے ۔
یہ بات تو سوفیصد درست ہے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہوا ہے ، اور اس کی
جلد بازی اکثر لمحات اسے ٹھوکریں کھلادیتی ہے ، وہ اوندھے منھ گرتاہے ،
کبھی سنبھلتاہے ،کبھی قدرت اسے سنبھلنے کاموقع نہیں دیتی ، پھر وہ اپنی
قسمت کو کوستاہے اور اسے اپنی کمیاں خامیاں اور جلد بازی میں لئے گئے غلط
فیصلے یاد نہیں آتے۔ اس طرح وہ اپنی قسمت کو ہی مورد الزام ٹھہرا تاہے اور
دل کو تسکین دیتاہے ۔اسی جلد بازی سے جڑے ہوئے انسانی زندگی کے بہت سارے
مسائل ہیں ، جن سے انسان تاحیات جھوجھتاہے اور الجھارہتاہے ۔کبھی اس سے
نجات نہیں پاتایاراہ فرار کی کوئی صور ت ہی نظر نہیں آتی ۔ انہی الجھے اور
بگڑے ہوئے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ طلاق کابھی ہے ۔ جسے اسلام نے کبھی
بھی اچھانہیں سمجھا ،بلکہ یہ اللہ کے نزدیک حلال عمل میں سے ناپسندیدہ ہے ۔الا
یہ کہ کوئی دوسرا چارہ کار نہ ہو ،پھر بھی حتی المقدور مفاہمت کے عمل کو
اپنانا چاہئے ۔
یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس معاملے میں ہماراسماج بہت ہی ناسمجھ اور
بزدل واقع ہوا ہے ، نہ تو اسے بصیرت ودانائی ہے اور نہ ہی پریشان کن حالات
میں صبر وعزیمت سے کام لینے کاملکہ ،جہلاءکی تو باتیں نہ کی جائیں ،پڑھے
لکھے طبقات میں ایسے ایسے افراد بستے ہیں جن کی دانش مندی کے چرچے ہیں اور
اخلاق وکردار کی دہائی دی جاتی ہے وہ بھی ازدواجی زندگی اور معاشرتی زندگی
میں پھسڈی ثابت ہوتے ہیں ۔یاتو وہ بیوی کے جذبات کو سمجھ نہیں پاتے یاپھر
زوجہ کی باتیں شوہر کے نزدیک بکواس ،فضول اور قابل اعتناءنہیں ہوتیں ، اور
محترمہ کی باتوں کو نظر انداز کر دیا جاتاہے ۔اب شوہر کااپنی بیوی کو بارہا
نظر انداز کردیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی ۔رد عمل کے طور پر بیوی
روٹھتی ہے، ضد کرتی ہے ،لڑتی ہے ،جھگڑتی ہے ، اس کے تیور سخت ہوتے چلے جاتے
ہیں ، مزاج میں تر شی آجاتی ہے ،بالآخر آئے دن کی توتو -میں میں ازدواجی
زندگی کاناسور بن جاتاہے ۔ بس ایک دن آپے سے باہر شوہر طلاق طلاق۔۔۔۔۔کاتیر
کمان سے چھوڑ دیتاہے ۔بیوی روتی ہے ،بلکتی ہے ، لیکن اس کارونا دھونا
سودمند نہیں ہوتا۔اب شوہر کی راہیں الگ اور بیوی کی ۔۔۔۔
سماج کے افراد سے یہ بہت ہی چبھتاہو ا سوال ہے کہ آخر ایساہوتاکیوں ہے ؟طلاق
کی نوبت ہی کیوں آتی ہے ؟کیوں شادی سے قبل اور شادی کے ابتدائی ایام میں
بہوئیں گھروں کی زینت ہوتی ہیں ، ان کے نازو نخرے سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے
ہیں ، لیکن جوں جوں رشتے اور بندھن پرانے ہوتے ہیں تیوں تیوں سسرالیوں کے
سلوک میں تلخی آنے لگتی ہے ۔ اب بہو کی باتیں شیریں اور میٹھی نہیں لگتیں ۔
بہووں کو طنز یہ نام دئے جاتے ہیں ،تیکھی مرچی ،اڑیل گھوڑی ، ضدی ،بے لگام
،نہ جانے کیاکیا ۔ بعض اوقات انہیں فحش کلمات سے بدچلن وحشیابھی کہہ کر
طعنہ دیا جاتاہے اور زدوکوب کی جاتی ہیں ۔
معاشرے اور سماج کے جائزے کی روشنی میں رشتے کی ناکامی کے چند وجوہ نظر آتے
ہیں ۔
(1)رشتے کے وقت طرفین کا مطمح نظر سیرت و کردار نہیں ہوتا ۔ لڑکی والے لڑکا
کی مالداری دیکھتے ہیں اور لڑکوں کی حالت بھی ایسی ہی کچھ ہوتی ہے ۔
(2)ایک نئی نویلی دلہن جب ہاﺅ بھاﺅ کے ساتھ آتی ہے اور اس کے ساتھ جہیز کی
شکل میں کافی کچھ ہوتاہے ۔ اب وہ نہ تو گھر میں بہو کی طرح رہ پاتی ہے اور
نہ ہی بیٹی کی طرح ۔ اس کے مزاج میں فخر وغرور اور حاکمیت ہوتی ہے ،وہ حکم
دینا پسند کر تی ہے ، اسے آرڈر کر نا اچھالگتا ہے ،حتی کہ وہ شوہر کو بھی
اپنی جوتی کی نوک پر رکھنا چاہتی ہے ،اور بارہا اس بات کا برملا اظہا ر بھی
کر بیٹھتی ہے کہ ”میر ے والدین نے اتنا کچھ تمہیں اس لئے نہیں دیا کہ میں
تمہا ری نوکرانی بن کر رہوں “۔ایسا اس لئے کہ اس کی ذہنیت اب تبدیل ہو چکی
ہوتی ہے ، گھریلو کام کاج جو کہ اپنا ہوتاہے ، اس کو کرنا اسے ناگوار گزرتا
ہے ، وہ گھٹیاتصور کرتی ہوئے گھر کے اپنے کام کو نوکروں کا کام شمار کرتی
ہے ۔ یہیں سے گھریلو تانا شاہی کے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں ۔گھرکی مالکن بننے
کے لئے جھگڑا آئے دن کا معمول بن جاتاہے ۔ ساس خود کو مالکن بتاتی ہے ، بہو
کا خیال ہوتاہے کہ وہ مالکن بن کر رہے۔
(3)کبھی ایسا ہوتاہے کہ شادی طرفین کی رضامندی سے انجام پاتی ہے ۔ لین دین
کی رسم بھی لڑکی والے حتی المقدور پوری کردیتے ہیں ، لیکن جب جہیز کالاﺅ
لشکر لڑکے والے کے من مطابق نہیں ہوتا تو وہ بہویں سسرال میں طعنہ دی جاتی
ہیں ۔ان سے جہیز کے مطالبات ہوتے ہیں،مانگیں نہ پوری نہ ہونے کی صورت میں
ایذا پہنچایاجاتا ہے ،جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ
جلاکر یا اور کوئی حربہ اپنا کر بہیمانہ انداز میں قتل کردیاجاتاہے۔
(4)میاں بیوی کے درمیان بناﺅ نہ رہنے کی ایک اہم وجہ آپس میں تال میل
کافقدان بھی ہے ۔ تال میل کی با ت کریں تو یہ رشتے کی بنیاد ہے ، اصل ہے
۔اور اس کا بہت ساری باتوں میں پایاجانا اورمفقود ہونا دونوں طے ہے ۔مثلاََ
عمر کاتال میل ،علم اور لیاقت کاجوڑ ،مزاج کی شگفتگی اور کرختگی میں تال
میل ،جذبات واحساسات ،رہائش ،افکار وخیالات اوربھی دیگر باتیں ۔اکثرہا طلاق
کی نوبت اسی بنیاد کو لے کر آتی ہے ۔بیوی چاہتی کچھ ہے شوہر کے جذبات کچھ
اورہوتے ہیں ۔ کبھی شوہر نیک سیرت تو بیوی اس کی الٹ ۔تو کبھی بیوی نیک
طبیعت اور شوہر میں عریانیت۔کبھی شوہر چاہتاہے کہ بیوی زمانے کے رنگ میں
رنگ جائے لیکن اسے ناگوار گزرتاہے ۔تو کبھی بیوی چاہتی ہے کہ اس کاشوہر
ہیرو دکھے اسے ڈسکو میں لے جائے ،لیکن شوہر کو یہ بے حیائی اورننگا پن پسند
نہیں ۔اب جس رشتے میں اس قدر اختلافات ہوں بھلا اس میں پائیدار ی کیوں کر
ممکن ۔ اس کے علاوہ بھی طلاق کے دیگر اسباب ہوسکتے ہیں ،لیکن مذکورہ باتوں
سے صرف نظر ممکن نہیں،بلکہ معاشرتی زندگی کے یہ وہ ناسور ہیں جن پہ قابو نہ
پایاگیا تو ازدواجی زندگی مزید تنگ ہوتی چلی جائے گی۔
اللہ رب العالمین نے نکاح اور شادی کو باعث سکون اور حیا ت کو فرحت بخشنے
کاذریعہ بتلایا۔ یعنی تم شادی اسلئے کرو کہ اس سے تمہیں دلی سکون حاصل ہو ۔
اب جبکہ رب العزت نے بیوی کو سکون کا سامان بتایا پھر اس میں تلخی کا آجانا
تعجب خیز نہیں تو فکر کا موقع ضرور ہے ۔ پھر شوہر وبیوی کے رشتے کی نا چاقی
کی کاکیا۔اور فکر کی بات اسلئے کہ جو چیز تسکین کاباعث ہو وہی کڑوی ہوجائے
پھر تو سکون کے ساتھ نیند بھی چھن جاتی ہے ۔کتاب وسنت کی روشنی میں ازدواجی
زندگی سے متعلق چند سنہرے اصول ذکر کئے جاتے ہیں ،جن میں بعض کارشتہ نکاح
سے قبل کاہے اور بعض کابعد ازنکاح۔محمد ﷺ کی پیاری حدیث ہے کہ تم نکاح سے
قبل چند باتوں کا خیا ل رکھو(1)لڑکی کی مالداری دیکھو (2)حسب ونسب دیکھو
(3)خوبصورتی دیکھو(4)دینداری دیکھو (5)خاندان دیکھو کے زیادہ بچہ جننے
والاہو ۔
یہ پانچوں باتیں ایسی ہیں جن سے مسلمان کاذاتی فائدہ بھی ہے اور اسلام کے
لئے بھی یہ باتیں ممدومعاون ہیں ۔ اس کے اندر انسانی ہر طبقات ونسل اور ان
کے جذبات وخیالات اور ان کی پسند وناپسند کا خیال رکھاگیا ہے ۔
مالداری کافائدہ یہ ہے کہ اگر انسان معاشی طور پر کمزور ہوتو بہت حد تک
سسرال والے اس کے کفیل بن جاتے ہیں۔اسلام میں حسب ونسب اور فخر کےلئے تو
کوئی جگہ ہی نہیں ،البتہ دشمنان اسلام پر رعب وداب ڈالنے کےلئے یہ بہت ہی
اچھی چیز ہے ، جو کبھی کبھار انسان کوسسرالیوں کے توسط سے مل جایاکرتی ہے ۔
خوبصورتی یہ تسکین کاباعث ہے اور نگاہوں کو بھٹکنے سے روکنے والی ہے ۔
دینداری کاپوچھناہی کیا اولاد میں دینداری کبھی ماں کے رشتے تو کبھی باپ کے
۔بچہ کی تعداد میں زیادتی کامطلب معاشرے اور سماج میں اپنی مضبوطی اور پو
زیشن مستحکم کرنا ۔ اسلام کے فائدے کی بات کریں تو لڑکا ہو یا لڑکی دونوں
کی مالداری اسلام کےلئے مفید ثابت ہوسکتی ہے،اگر وہ چاہیں۔، مثال کےلئے
اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کافی ہے۔ مردوں میں ابو بکر صدیق ،عثمان
غنی عبدالرحمن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہم نے اسلام کے لئے جو
مالی قربانیاں پیش کیں اسلام اس کی نظیر پیش کر نے سے قاصر ہے ۔
حسب ونسب سے اسلام کو بعض دفعہ بڑا فائدہ پہنچا۔ دشمنان اسلام کئی بار چاہ
کر بھی آپ ﷺ کا بال بیکا نہ کرپائے ، اور اگر کسی نے جر ات کی تو حمزہ رضی
اللہ عنہ کی کمان نے اسے سر کیا۔رہی بات خوبصورتی کی تو یہ خو بصورتی میاں
بیوی دونو ں کے حق میں برابر مفید ہے ۔جب بیوی خوبصورت ہوگی تو دوسری
عورتوں پر نگاہیں نہیں بھٹکیں گی اور انسان ایک بہت بڑے گناہ سے بچ جائے گا
۔ عموما گناہوں کامرکز مردو عورت کاحسن ہے ،جو دعوت گناہ دیتاہے۔ اب جبکہ
بیوی خوبصورت ہو گی تو مرد نہ بھٹکیں گے۔ یہی معاملہ عورتوں کا بھی ہے ۔اس
سے صالح معاشرہ تشکیل پائے گااور یہی اسلام کی مدد ہے ۔ دینداری تو اللہ کی
جانب سے عظیم تحفہ ہے جو کسی کسی کے حصے ہی آتاہے ۔ اس کے ذ ریعہ انسان
اپنی آخرت تو سنوارتاہی ہے ، اس کی دنیا بھی سدھر جاتی ہے ، عزت و احترام
کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔ اور جب کوئی انسان اسلامی طرز معاشرت اختیار کئے
ہو اورمعاشرے میں اس کی قدر ہو، گویا وہ اپنے اخلاق وکردار سے اسلام کی سچی
تصویر پیش کررہا ہے ۔ اسے ہی تو اسلام کا تعاون کہتے ہیں ۔ زیادہ بچہ جننے
کی بات کریں تو دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہوگی وہ جانی قوت
میں اسی قدرمضبوط ہوتے چلے جائیں گے جس سے اسلام کا فائدہ یقینی ہے ۔ کلمہ
گو کی تعداد بڑھے گی ۔دنیا میں اسلام کے نام لیواﺅں کاغلغہ ہوگا ۔ مزید یہ
غیر قوم کے دل میں اسلام کے تئیں رعب ودبدبہ ڈالنے کا اہم ہتھیاربھی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے سب سے بڑا فائدہ یہ بتایاہے کہ” انی مکاثر بکم الامم “یعنی
آپ ﷺ کثرت تعداد کی وجہ سے اپنی امت پر فخر کریں گے ۔
البتہ جو لوگ نسل کی زیادتی کے مخالف ہیں اور وہ اس بارے میں اپنی منطق
لگاتے ہیں کہ آبادی کم ہوگی تو انسانی ضروریات میں تنگی نہیں آئے گی اور
لوگ فراخی کے ساتھ معاشرے میں زندگی بسر کرسکیںگے ۔ اسی لئے ان کا یہ نعرہ
ہے ’ہم دو ہمارے دو‘ ۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ جواللہ ماﺅں کے پیٹ میں
انسان کو غذا فراہم کرسکتاہے جبکہ اس رحم میں پلنے والے بچوں کی نگہداشت
میں انسان کااپنا کوئی کردار نہیں ہوتااوراس کی روزی روٹی کاپوراانتظام
اللہ کرتاہے ۔ توکیا اللہ جب اس بات پر قادر ہے کہ وہ بغیر کسی انسانی
وسائل کے اپنے بندوں کو ماﺅں کی کال کوٹھری میں داناپانی فراہم کرے تو کیا
نعوذ باللہ اس کے قدرت سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنے بے روزگار بندے کو
کھانا کھلائے ،کپڑے پہنائے ، رہائش کاانتظام کرے؟کبھی نہیں ! اللہ کافرمان
ہے ”تم اپنی اولاد کو روزی روٹی کی تنگی کے خوف سے قتل مت کرو ۔ہم اسے بھی
رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی ۔بلاشبہ ان کا قتل بہت بڑا گناہ ہے۔“اب جبکہ
انسان کی مکمل ضمانت اللہ نے لے لی پھر کسی کی کیامجال کے اللہ کے بنائے
ہوئے قانون میں ٹانگ اڑائے ۔حالانکہ وہ خود تو اتنا بے بس ہے کہ لاکھ چاہ
کر بھی ایک مکھی کی تخلیق نہیں کرسکتا،چہ جائے کہ ایک چلتاپھرتاانسان
پیداکرے ۔حق جب ثابت ہوچکا تو انسان کو قطعی یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ بچے
کھائیں گے کہاں سے ،اس کی کفالت کیسے ہوگی ۔
ایک بات میں نے یہ بھی کہی تھی کہ اسلام کے ان اصولوں میں ہرطبقات اور ہر
رنگ ونسل کاخیال رکھاگیا ہے ۔ یہ بات صد فیصدی درست اور ثابت ہے ۔وہ اس طرح
کہ انسان کی طبیعت نام ونمود کی بھوکی ہے ،حسب ونسب کے ذریعے وہ اسے
مٹاتاہے ۔خوبصورتی کادلدادہ ہے، عورت خوبصورت ہو تو اس کی یہ آرزو پوری
ہوتی ہے ۔ مال و دولت کی ہوس تو اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی ،وہ کبھی کبھی
پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیا ر ہوتاہے ،یہ خواہش بھی اس کی اللہ پوری
کرادیتاہے ،بعض اوقات سسرال کی جائیداد اس کے لیے کافی ہوجاتی ہے ۔بعض
انسان کو صرف دینداری چاہئے وہ بھی یہاں موجود ہے ،بلکہ دینداری کو کامیابی
کی ضمانت کہا گیاہے ۔ اولاد کی خواہش کا احترام تو اللہ نے کیا ہی ہے ،اب
کسی کو زیادہ بچہ جننے والی بیوی مل جائے تو الحمدللہ ۔
مذکورہ خیالات ایسے ہیں جو ہر سماج اور ہر طبقے کے افراد میں پائے جاتے ہیں
۔ شہرت ، دولت ، خوبصورتی ، اور اولاد کی للک ہر کسی کو ہوتی ہے ۔چنانچہ
اسلام کا جو نظریہ نکاح کے بارے میں ہے اس کے اندر ہر طرح کے جذبات کا خیال
رکھاگیا ہے ۔ ایسا نہیں کہا گیا کہ تم دیندارخاتون کو ہی تلاش کرو ، نہیں !
بلکہ تمہیں کھلی اجازت ہے کہ مالدار عورت کاانتخاب کرو ، خوبصورت کو پسند
کرو ، اچھے خاندان میں رشتہ کرو ۔لیکن یہ یاد رہے کہ اسلام نے دینداری ہی
کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھاہے ۔چنانچہ جس حدیث کے ضمن میں میں نے مذکورہ
باتیں لکھی ہیں اس کا آخری ٹکرا اسی بات کو ثابت کرتاہے کہ ” دیندار عورت
کا انتخاب کرکے کامیاب ہوجاﺅ“۔اب کسی شخص کے حصے عورت کی مالداری ،
خوبصورتی کے ساتھ دینداری بھی آجائے تو الحمد للہ !اس شخص کی دنیا بھی
کامیاب اور آخرت میں بھی وہ بامراد۔ اور اسلام میں دینداری کو فقط اسلئے
ترجیح دی گئی کہ دیندار ی کے راستے زندگی میں برکت آتی ہے۔انسانی متقی اور
پر ہیزگارہوجاتاہے ۔اللہ کے انعام کی اس سے بہترشکل ہوہی نہیں سکتی کہ کسی
کو دینداری نصیب ہو ۔نیکی کی توفیق ملے۔ اور جب ایک انسان خود نیک ہوساتھ
ہی نیک عورت اس کی رفیق حیات ہو تو اسے ”سونے پر سہاگہ کہیں گے “ ۔
اس لئے شادی کے وقت ہما را مطمح نظر درست ہو نا ضروری اور اصولی بات ہے۔
ہماری نیتوں پر ہمارے اعمال کاانحصار ہے ۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر ہم نیک
ہوں گے اور ترجیحات میں ہمارے دینداری ہوگی تو اللہ ہمیں نیک بیوی ہی
عطاکرے گا،جو ہماری دنیااور آخرت کے لئے بہترین تحفہ ہے ۔ اللہ معاشرے اور
سماج کے بدلے رجحان کو پھیر دے ۔نیکی کی حرص اور لالچ دلوں میں جاگزیں کردے
۔آمین |