محمد علی جناح ٭٭٭قسط چہارم٭٭٭محمد علی جناح سے قائدِاعظم | جناح کیپ | قرارداد ِلاہور

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت

علامہ اقبال محمد علی جناح

گورنر جنرل قائد ِاعظم محمد علی جناح (1876 ء۔1948 ء)
تحقیق وتحریر:عارف جمیل

محمد علی جناح سے قائدِاعظم | جناح کیپ | قرارداد ِلاہور٭قسط چہارم٭

محمد علی جناح نے ذاتی زندگی کے معاملات کے باوجود اگلے ہی ماہ مارچ1929ء نے مسلم لیگ کی طرف سے چودہ نکات پیش کر دئیے۔ جس سے ہندو رہنماوُں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ ریمزے میکڈانلڈ نے برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کا عہدہ لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد سنبھالا تو اکتوبر 1929ء میں وائسرائے ہند نے 12ِنومبر 1930ء کو لندن میں پہلی گول میز کانفرنس منعقد کروانے کا اعلان کیا۔ اس ہی دوران 6ِ اپریل 1929ء کو علم الدین نامی ایک شخص نے شاتم ِرسول راج پال کو اُسکی دوکان واقع ہسپتال روڈ لاہور پر خنجر کے بے در پے وار کر کے ہلاک کر دیا۔جس پر وہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس راج پال مردود نے رسول پاکﷺ کی ذات با برکات کے بعض پہلووں اور دین ِ اسلام پر اپنی کتاب میں بڑے گھٹیا جملے لکھے تھے۔ محمد علی جناح اُن دنوں چودہ نکات پیش کرنے کے بعد اپنی وکالت کی پریکٹس کر رہے تھے۔ علامہ اقبال کی خواہش پر محمد علی جناح اپنی تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے یہ مقدمہ لڑنے لاہور آ گئے اور اپنے لا جواب دلائل سے یہ ثابت کر دیا کہ علم الدین بے گناہ ہیں۔ لیکن اسکے باوجود حکومتِ برطانیہ نے ہندوؤں کو خوش کرنے کیلئے غاذی علم الدین شہیدکو پھانسی کی سزا دے دی۔
محمد علی جناح نومبر 1930ء میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے۔ دسمبر 1931ء میں ہونے والی دوسری گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس کانفرنس میں محمد علی جناح کے ساتھ شاعر ِمشرق علامہ اقبال بھی شریک ہوئے۔ تیسری گول میز کانفرنس میں محمد علی جناح شامل ہی نہ ہوئے کیونکہ اُن کے مطابق وہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تھے جنکی خواہش تھی۔ محمد علی جناح ان حالات سے بہت مایوس ہوگئے اور یہ سوچتے ہوئے کہ نہ تو ہندو ذہنیت بدلی جا سکتی ہے نہ ہی مسلمانوں کو ان کے نازک حالات کا احساس دلوا یا جا سکتا ہے۔ اس لئے اُ نھوں نے لندن میں رہائش اختیار کر کے وکالت کی پریکٹس پریوی کونسل میں شروع کر دی اور اپنی بیٹی دینا جناح کو لندن ہی کے ایک سکول میں داخل کروا دیا۔
محمد علی جناح نے ایک دن تُرکی کے رہنماء مصطفٰی کمال پاشا کی مشہور سوانح حیات "گرے وُلف" پر ایک تبصرہ جو کسی اخبار میں چھپا ہوا تھا پڑھا۔ اُنھوں نے وہ کتاب فوراً بازار سے جا کر خرید لی اور بڑے شوق سے پڑھنے کے بعد اپنے دوست احباب کے ساتھ مصطفیٰ کمال پاشا کے کردار پر بحث کرتے۔ گرے وُلف کے کچھ حصے ایسے بھی ہیں جنہیں پڑھ کر محمد علی جناح کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی ہو گی کہ اُنھیں اس پُرسکون زندگی کو ترک کر کے پھر ہندوستانی سیاست کے ہنگاموں میں شریک ہو کر اپنے سیاسی مقصد کی تکمیل کیلئے سرگرم عمل ہو جانا چاہیے۔ لیکن شاید ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ پہلے علامہ اقبال اور پھر لیاقت علی خان کے مزید اصرار پر اپریل 1934ء میں لندن چھوڑ کرہندوستان کے شہر بمبئی میں آکر رہائش اختیار کر لی۔
محمد علی جناح کے واپس آنے پر اُنھیں آل انڈیا مسلم لیگ کا متفقہ صدر چُن لیا گیا اور اسکے علاوہ اکتوبر 1934ء میں بمبئی کے اپنے پرانے حلقے سے ایک دفعہ پھر مرکزی اسمبلی کیلئے بِلا مقابلہ ممبر منتخب ہو گئے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ریمزے میکڈا نلڈ نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں کوئی نتیجہ سامنے نہ آنے پر اپنی حکومت کی طرف سے ہندوستان قوم کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا، جو کہ گورنمنٹ آف اِنڈیا ایکٹ 1935ء کی شکل میں تھا۔جس کے تحت مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انقعاد اور صوبوں میں نمائندہ حکومتوں کا قیام ہونا تھا۔
اپریل 1936ء میں وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے ان انتخابات کیلئے فروری 1937ء کا مہینہ چُنا۔ علامہ اقبال اور محمد علی جناح کو اس تاریخی لمحے کی اہمیت کا احساس تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں نے مختلف موقف اختیار کر رکھے تھے۔ پنجاب میں مسلمانوں کے لیڈر سر فضل حسین نے ہندوؤں سے مل کر یونینسٹ پارٹی بنائی اور سندھ میں مسلمان سر عبداللہ ہارون کی قیادت میں سندھ یونایٹیڈ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ بنگالی مسلمانوں کی اکثریت بھی مولوی فضل الحق کی قیادت میں کرشک پرجا پارٹی کے ساتھ تھی۔ جس کے ممبر ہندو مسلمان دونوں تھے۔ سرحد میں داکٹرخان صاحب اور خان عبدالغفار خان کُھل کر محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے تھے۔
فروری 1937ء میں ہندوستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ نہرو کی قیادت میں کانگرس کو 11 میں سے 5 صوبوں میں مکمل اکثریت حاصل ہو گئی جبکہ مسلم لیگ نے کوئی خاص پوزیشن حاصل نہ کی۔ نئے سیاسی دور کے اس پہلے مقابلے میں محمد علی جناح مات کھا گئے تھے اور مسلمانوں کو بھی بڑی تشویشناک صورت حال کا سامنا تھا۔ کانگرس اپنی طاقت کے نشے میں سر شار تھی۔ مارچ 1937ء میں نہرو نے دعویٰ کیا کہ اب ہندوستان کی بساط ِسیاست میں دو فریق ہیں۔ ایک کانگرس اور دوسری حکومت برطانیہ۔ محمد علی جناح نے اسکی تردید یہ کہہ کر کی کہ ایک دن وقت ثابت کرے گا کہ" ایک تیسرا فریق مسلمان بھی ہے"۔
جولائی 1937ء میں کانگرس نے سات صوبوں میں اپنی وزارتیں بنائیں۔ سندھ اور بنگال میں مسلم لیگی وزارتیں قائم ہوئیں۔ پنجاب اور سرحد سے کوئی خاص تعاون حاصل نہ ہوا۔ بہرحال ہندوستان کے 7صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہوئیں تو ہندو ؤں نے ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دئیے۔ محمد علی جناح اس دوران کانگرس کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور ان معاملات پر گاندھی و نہرو سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 21ِ اپریل 1938ء کو علامہ اقبال کی وفات ہو جانے سے محمد علی جناح کو بہت دُکھ ہوا۔
3 ِ ستمبر 1939ء کو جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو حکومت ِبرطانیہ نے ہندوستان کی مختلف پارٹیوں سے جنگی مساعی میں تعاون اور امداد کی اپیل کی۔ کانگرس نے اس کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں یہ اعلان کر دیا کہ کانگرس جنگ میں تعاون صرف اس شرط پر کرے گی کہ ہندوستان کی آزادی کی ضمانت دی جائے ورنہ عدم تعاون کرے گی۔ بعدازاں صوبوں کی کانگرسی وزارتوں کو کانگرس کی مجلس عامہ نے مستعفی ہونے کا حکم بھی دے دیا۔ مسلمانوں نے کانگرسی وزارتیں ختم ہونے پر سکون کا سانس لیا اور محمد علی جناح کے کہنے پر 22ِ دسمبر 1939ء کو پُر امن طریقے سے "یوم نجات" بھی منایا۔ 4 ِدسمبر1939 ء کو ٹائمز میگزین نیویارک نے محمد علی جناح کو اہم شخصیت قرار دیتے ہوئے اُن کی تصویر شائع کی۔اس سے پہلے محمد علی جناح کو دسمبر1938 ء کو پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے دوران "قائد اعظم" کا لقب بھی دیا جا چکا تھا۔ مسلم لیگ کا جو 25واں سالانہ اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہواتھا اُس میں محمد علی جناح نے پہلی دفعہ ٹوپی پہنی تو وہ ٹوپی "جناح کیپ "کے نام سے مشہور ہو گئی۔
محمد علی جناح کی اگلی کامیابی آل انڈیامسلم لیگ کی کے زیر ِاثر 22تا 24 ِمارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد اجلاس میں اپنے الگ وطن کے مطالبے کو واضح طور پر ایک قرار داد کی صورت میں پیش کرنا تھا۔ ہندو نفرت اور حقارت سے کہتے کہ اس قرارداد میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ اس قرارداد لاہور میں "پاکستان " کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن ہندوؤں کے اس ردِعمل کی وجہ سے محمدعلی جناح اور مسلم لیگ نے اقبال کے دیئے ہوئے اس نصب ُالعین کو چوہدری رحمت علی کے واضح کیے ہوئے لفظ" پاکستان" سے موسوم کرنا شروع کر دیا تھا۔
قرار دادِ لاہور کے بعد محمد علی جناح نے وائسرائے لاڑد لنلتھگو سے ملاقات کرکے ہندوستان کو دو آزاد ملکوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ مارچ ِ 1942ء میں سر اسٹیفورڈ کرپس نئی آئینی اصلاحات کا جائزہ لینے ہندوستان آئے تاکہ ہندوستان کے رہنماؤں سے اصلاح مشورے کے بعد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے۔ اس سے پہلے وہ 1940ء میں بھی ہندوستان آ چکے تھے اور محمد علی جناح سے تب ملاقات بھی ہوئی تھی۔لیکن وہ ملاقات بے سود ثابت ہوئی تھی۔ بہر حال اس دفعہ کرپس نے جو تجاویز پیش کیں ان میں تقسیم کے اصول کو قبول کرنے کا اشارہ تو موجود تھا لیکن اس سے مسلم لیگ اور کانگرس دونوں ہی مطمءِن نہیں تھیں۔ لہذا کرپس مشن کو ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے ہندوستان سے واپس جانا پڑا۔
٭(جاری ہے)٭

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 309996 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More