محمد علی جناح ٭٭٭قسط پنجم٭٭٭ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ | یادیں اور بیٹی دینا واڈیا

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت

جناح۔گاندھی۔نہرو۔ماؤنٹ بیٹن ۔مسز ماؤنٹ بیٹن۔ فاطمہ جناح۔دینا واڈیا

گورنر جنرل قائد ِاعظم محمد علی جناح (1876 ء۔1948 ء)
تحقیق وتحریر:عارف جمیل

ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ | یادیں اور بیٹی دینا واڈیا٭قسط پنجم٭

محمد علی جناح کی مقبولیت ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں میں بھی بڑھتی جا رہی تھی اور اُنکے دشمن اُن سے خائف رہنے لگے تھے۔ شاید اس ہی وجہ سے 26ِجولائی 1943ء کو محمد علی جناح پر رفیق صابر نامی شخص نے چاقو سے جناح ہاوس کے د فتر میں داخل ہو کر ان پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ محمد علی جناح نے اس حملے کو روکنے کیلئے ہاتھ بلند کیا جس کی وجہ سے اس شخص کا نشانہ چُوک گیا۔ اس دوران اُن کے سیکرٹری اور چوکیدار نے حملہ آور پر تو قابو پا لیا تاہم محمد علی جناح کے چہرے اور گردن پر زخم آئے۔ بعد میں تفتیش سے معلوم ہوا کے وہ شخص لاہو سے بمبئی آیا تھا اور اس کا تعلق خاکسار تحریک سے تھا۔ بہرحال محمد علی جناح اس قاتلانہ حملے کے باوجود بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی منزل کی طرف ایک دفعہ پھر رواں دواں ہو گئے۔
ہندوستان کے نئے وائسرائے لارڈ ویول نے مرکزی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ہندوستان ایک وحدت ہے جس کے جغرافیے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو محمد علی جناح نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نئے وائسرائے نے کانگرس کے ساتھ ساز باز کر کے ایسا کہا ہے۔ مئی 1945ء میں یورپ میں جنگ عظیم دوم کا خاتمہ اتحادی افواج کے حق میں ہوا تو 14 ِجون 1945ء کو وائسرائے لارڈ ویول نے ہندوستان کے آئینی مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنے کیلئے ہندوستان کے ممتاز رہنماؤں کی کانفرنس شملہ میں 25ِجون1945ء کو طلب کی لیکن یہ کانفرنس بھی ناکام ہو گئی کیونکہ کانگرس اب بھی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس سلسلے میں حکومت ِ برطانیہ کے نئے وزیراعظم لیبر پارٹی کے کلیمنٹ اٹیلی نے عہدہ سنبھالتے ہی دسمبر 1945ء کے آخری دنوں میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے انتخابات کروا دیئے جو بہت بڑا فیصلہ تھا۔ مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان پر مسلمانوں کی تقریباً تمام نشستیں جیت لیں۔ محمد علی جناح خود حسین بھائی لال جی کے 126ووٹوں کے مقابلے میں 3602ووٹ لیکر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اُنھوں نے اس کامیابی پر اعلان کیا کہ اللہ نے مسلمانوں کو جو کامیابی دی ہے اس پر اظہار ِ شکر گزاری کے طور پر مسلمان11 ِ جنوری1946ء کو یوم ِ ِفتح منائیں اور مسجدوں میں سجدہ شکر ادا کریں۔
جنوری 1946 ء میں صوبائی انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو بحیثیت مجموعی زبردست کامیابی ہو ئی۔ انتخابات کے نتائج سے ثابت ہو گیا تھا کہ مسلمانان ِ ہند کی غالب اکثریت مسلم لیگ کے ساتھ ہے۔ سندھ اور بنگال میں تو مسلم لیگ کو وزارت بنانے کا موقعہ بھی ملا، لیکن پنجاب میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے باوجود وہ حکومت نہ بنا سکی کیونکہ پنجاب میں یو نینسٹ پارٹی کے لیڈر خضر حیات ٹوانہ نے کانگرس و اکالی ارکان سے مل کر ایک کمزور وزارت بنا لی تھی۔ محمد علی جناح نے اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ اب منزل قریب ہے قیام ِپاکستان کیلئے کوششیں تیز کو دیں۔ انھوں نے متعدد بار ہندو رہنماؤں اور وائسرائے ہند سے ملاقاتیں اور خط و کتابت کی۔ مارچ ِ 1946 ء میں برطانیہ سے تین وزراء کا ایک وفد پھر سیاسی گفت و شنید کیلئے ہندوستان آیا۔ وفد جو" کیبنٹ مشن" کے نام سے مشہور ہوا معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ہندوستان میں اقتدار کس طرح اور کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ کیلئے یہ بڑا نازک وقت تھا کیونکہ برطانوی حکومت کا رحجان متحدہ ہندوستان کی طرف تھا۔ لہذا محمد علی جناح نے شملہ جانے سے پہلے نہایت دُور بینی اور فراست سے کام لیتے ہوئے اپریل ِ1946 ء میں دہلی میں ہندوستان بھر کے منتخب مسلمان ممبروں کا کنونشن بُلایا۔ اس کنونشن میں پہلے تو قراردادِ لاہور میں جو دو آزاد ریاستوں کا لفظ تھا اسے لفظ ریاست سے بدلا۔تاکہ ایک ملک کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ دوسرا صاف اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کیلئے دو الگ الگ آئین ساز اسمبلیاں بنائی جائیں۔ اسکے بعد جب شملہ میں مذاکرات ہوئے تو کانگرس اور دوسرے ہندو رہنماؤں نے اس بات کی کوشش کی کہ ہندوستان متحد رہے اور ایک آئین ساز اسمبلی ہو۔ کیبنٹ مشن پر کانگرس کی طرف سے اس مطالبے پر بہت دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن محمد علی جناح مطالبہ پاکستان سے ایک اِنچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ آخر کار مذاکرات ناکام ہو گئے اور کیبنٹ مشن نے خود ایک منصوبہ پیش کیا جس میں پاکستان کا اصول اور بنیاد موجود تھی۔
کیبنٹ مشن کے منصوبے میں ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی تھی۔ لیکن کانگرس کا دل صاف نہیں تھا۔اُدھر برطانوی پارلیمنٹ میں مشن کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ حکومت مسلم لیگ کے نقطہء نظر کی مکمل تائید نہیں کرتی۔ اس پر محمد علی جناح اور مسلم لیگ کو بددیانتی اور بدنیتی دونوں سے نمٹنا تھا۔ لہذا محمد علی جناح کے کہنے پر مسلم لیگ نے راست اقدام کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگیوں نے برطانوی حکومت کے عطا کئے ہوئے خطابات واپس کر دئیے اور 16 ِ اگست 1946ء کو سارے ملک میں یومِ راست اقدام منایا گیا جس میں قیام پاکستان کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ محمد علی جناح جو کہ ساری سیاسی زندگی میں ابھی تک ایک دفعہ بھی گرفتار نہیں ہوئے تھے اُن دنوں اُنکو یہ بھی اندیشہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ بہرحال سوائے کلکتہ میں فسادات کے باقی تمام ہندوستان میں اس راست اقدام والے دن حالات بہتر ہی رہے۔ 2ِ ستمبر 1946 ء کو جب کانگرس نے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تو محمد علی جناح اوروائسرائے کے درمیان بھی عبوری حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں گفت و شنید ہوئی۔ پھر اکتوبر 1946ء میں اُنھوں نے بھی عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ محمد علی جناح نے اس عبوری حکومت کیلئے مسلم لیگ کے پانچ نمائندے نامزد کر دیئے، جن میں ایک لیاقت علی خان بھی تھے۔ان فیصلوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں میں محمد علی جناح کی سیاسی فراست اور تدبر اپنے عروج پر تھا۔
عبوری حکو مت کے قیام کے بعد دسمبر 1946ء کے پہلے ہفتے میں حکومت ِ برطانیہ نے ہندوستان کے چیدہ چیدہ سیاسی رہنماؤں کو آئینی مسائل کے حل کی خاطر بات چیت کیلئے لندن میں بُلایا جس میں محمد علی جناح نے بھی شرکت کی۔لیکن دونوں سیاسی مخالفوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اس دورے میں اُن کو تھکان کی شکایت ہو گئی جس کی وجہ سے طبیعت کافی ناساز ہو گئی۔ لہذا بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچے اور وہاں ڈاکٹروں نے اُن آرام کرنے کی ہدایت کی۔ جس پر اُنھوں نے کچھ دن ملیر میں نواب بہاول پور کے محل میں آرام کیا۔ اصل میں اُنکے اعصاب جواب دے گئے تھے اور ایک مہینے تک اُنھیں اس تکلیف میں مُبتلا رہنا پڑا تھا۔ اس دوران اُنھیں ریڈیو پر بھی خبریں سننے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جب مارچ1947 ء کے شروع میں اُنکی طبیعت سنبھل گئی تو فوراً بمبئی واپس پہنچ گئے۔
وزیر اعظم ِبرطانیہ اٹیلی نے بھی 20 ِ فروری 1947 ء کو اعلان کر دیا کہ برطانیہ ہندوستان کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کر چکاہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ برطانیہ کے شاہ ششم جارج نے اپنے رشتے کے بھائی ایڈمرل البرٹ وکٹر نکولس لوئس فرانسس ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا آخری وائسرائے مقرر کیا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن اپنے کئی مشیروں کے ساتھ 22ِمارچ 1947 ء کو دہلی میں وارد ہوئے اور اُنکی مدد سے ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ جلد سے جلد تیار کروایا۔ جس کے بعد حکومت ِ برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کیلئے 15 ِ اگست 1947ء کی تاریخ مقرر کر دی اور تقسیم کے منصوبے کو منظور کرتے ہوئے اسے حرفِ آخر کہہ دیا۔
برطانیہ نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ دستِ کش ہونے سے پہلے ہندوستان کو دو خود مختار مملکتوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ 3 ِجون 1947 ء کی رات کو وائسرائے نے اس منصوبے کی تفصیل آل انڈیا ریڈیو پر بیان کی اور پھر پہلے نہرو نے کانگرس کی طرف سے تقریر کی اور بعد میں محمد علی جناح نے مسلمان قوم سے خطاب کیا، اور خطاب ان الفاظ پر ختم کیا "َپاکستان زندہ باد"۔ اُنھوں نے اس تقسیم کے منصوبے کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔9 ِجون کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل نے حکومت ِ برطانیہ کا آزادی کا منصوبہ منظور کر لیا اور 19 ِجون کو کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ 4ِجولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں قانونِ آزادی ِ ہند کی منظوری ملی اور 18ِ جولائی کو شاہِ برطانیہ کو منظوری کے بعد قانون ِ آزادیِ ہند کا نفاذ ہوا۔3 ِاگست کو وائسرائے ِہند لارڈماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے اور محمد علی جناح پاکستان کے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور7 ِ اگست کو محمد علی جناح دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی تشریف لے آئے۔ ُٓخصٹٓں ٰ ا خت
محمد علی جناح نے کراچی آنے سے پہلے اپنی بیٹی دینا واڈیا سے مُلاقات کی۔ جسکی وجہ یہ تھی کہمحمد علی جناح کی نجی زندگی گزشتہ چند سالوں سے بہت خاموش تھی۔ اُنکی بیٹی دینا نے بمبئی میں اپنی والدہ کے پارسی رشتے داروں کے ساتھ سکونت اختیار کر لی تھی اور بعدازاں اُن ہی کے تعاون سے پارسی لڑکے نیویل واڈیا سے شادی کر لی تھی۔ چونکہ یہ شادی اپنے والد کی مرضی کے خلاف تھی۔ لہذا محمد علی جناح نے اپنی بیٹی سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لئے تھے۔اُنکی چھوٹی بہن فاطمہ جناح جنہیں محمدعلی جناح نے 1926ء میں دندان سازی کی تربیت حاصل کرنے کیلئے کلکتہ بھیجا تھا وہاں سے دو سالہ تربیت حاصل کرنے کے بعدبمبئی میں دو سال پریکٹس بھی کی۔لیکن محمد علی جناح کی بیوی کی وفات کے بعد سے اُنکے پاس ہی رہ رہی تھیں۔
بمبئی میں جناح ہاؤس جہاں 1935 ء تا 1947ء تک قیام کیا اور سبھاش چندر بوس، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو سے تاریخی مذاکرات کیئے تھے کی یا د تازہ کی۔ 10ِ اورنگ زیب روڈ دہلی والی قیام گاہ رام کرشنا ڈالمیا کے ہاتھ میں تین لاکھ روپے میں فروخت کر دیا تھا اور جولائی 1947 ء میں حکومتِ ہندوستان کو اپنا انکم ٹیکس ایڈوانس ادا کر دیا تھا جبکہ اُن علم میں تھا کہ اگست 1947 ء میں بہ مشکل ایک ماہ بعد ہندوستان تقسیم ہو جائے گا۔ محمد علی جناح جب محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کراچی کیلئے روانہ ہو رہے تھے تو ہوائی جہاز میں سوار ہو کر فرمایا کہ دہلی وہ شہر ہے جہاں ہم نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور پاکستان حاصل کیا اور یہ شاید آخری باری ہے کہ میں دہلی کو دیکھ رہا ہوں۔
٭(جاری ہے)٭
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 310065 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More